سوٹ کے کالر پر لگائی جانے والی ‘پنوں’ کے ذریعے میڈلین البرائٹ کی جمہوریت کی حمایت

میڈلین البرائٹ امریکی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون ہیں۔ اپنے اس منصب کے دوران انہوں نے امریکہ کی جانب سے سفارت کاری کرتے ہوئے ایک غیر روایتی اور موثر چیز کا استعمال کیا: یہ چیز وہ پنیں تھیں جنہیں وہ اپنے سوٹوں کے کالر پر لگایا کرتی تھیں۔

انہوں نے شیئر امریکا کو بتایا کہ یہ پنیں “مملکتی تدبر، تدریسی ذریعے اور ایک مختلف قسم کے ابلاغ کے شستہ اظہار” کا کام دیتی تھیں۔ بیشر اوقات یہ مزاح کا احساس دلاتی تھیں جس کی عام طور پر مذاکرات کے دوران ضرورت ہوتی ہے۔”

البرائٹ پراگ میں پیدا ہوئیں اور 1939 میں دو برس کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ انگلینڈ چلی گئیں۔ اس کے تقریباً ایک عشرے بعد ان کا خاندان امریکہ منتقل ہو گیا۔

ایک ایسے ملک سے تعلق رکھنے والی تارک وطن کی حیثیت سے جو فاشزم کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا، البرائٹ جمہوریت کے حق میں کھڑی ہوئیں اور نیٹو اتحاد کی بھرپور حمایت کی۔

 چاندی کی دو پنیں (John Bigelow Taylor and Dianne Dubler)
البرائٹ کے زیراستعمال رہنے والی یہ دو پنیں چیک ڈیزائنر نے تیار کیں۔ (John Bigelow Taylor and Dianne Dubler)

1997 میں صدر بل کلنٹن نے البرائٹ کو وزیر خارجہ  مقرر کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اُس وقت تک  کی امریکہ کی حکومتی تاریخ میں اعلٰی ترین عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

وزیر خارجہ بننے سے پہلے البرائٹ نے  اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔

 واتسلاو ہاول کی باتیں سنتے ہوئے، میڈلین البرائٹ مسکرا رہی ہیں (© Petr David Josek/AP Images)
بائیں جانب کھڑیں، البرائٹ2007 میں پراگ میں گیارہویں فورم کی سال 2000 کی کانفرنس کی افتتاح کے موقع پر چیکوسلواکیہ کے سابق صدر اور انسانی حقوق کے محافظ، واتسلاو ہاول سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© Petr David Josek/AP Images)

1997 میں عراقی رہنما صدام حسین کے ساتھ البرائٹ کی ملاقات سے پہلے صدام  حسین کے ایک درباری شاعر نے انہیں “ایک بے مثال ناگ” کہا۔ البرائٹ نے اس کا جواب اپنے زیورات کے انتخاب کے ذریعے دیا۔

وہ بتاتی ہیں، ”پنوں کو سفارتی ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کا تصور محکمہ خارجہ کے کسی سرکاری ہدایت نامے یا امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تاریخ کی کسی کارگزاری میں نہیں ملتا۔

 چھڑی کے گرد لپٹے ہوئے سانپ والی پن (John Bigelow Taylor and Dianne Dubler)
البرائٹ نے صدام حسین سے ملاقات کے دوران اپنے کوٹ پر یہ پن لگائی ہوئی تھی جس میں چھڑی کے گرد ایک ناگ لپٹا ہوا ہے۔ (John Bigelow Taylor and Dianne Dubler)

اس کے بعد البرائٹ نے اپنے سفارتی موقف کا عندیہ دینے کے لیے غیر ملکی اعلٰی شخصیات سے ملاقاتوں سے پہلے پنوں کا انتخاب کرنا شروع کر دیا۔

البرائٹ کہتی ہیں کہ صدر ولاڈیمیر پوٹن نے 2000 میں ماسکو میں امریکہ اور روس کے سربراہی اجلاس کے دوران کلنٹن کو بتایا، “وہ بالعموم یہ دیکھتے ہیں کہ میں نے کون سی پن لگائی ہوئی تا کہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر سکیں۔” جب انہوں نے پوچھا کہ میں نے اپنے روائتی تین [عقلمند] بندروں والی وہ پن کیوں لگا رکھی ہے جو ‘ بری بات نہیں سنتے، بری بات نہیں کہتے، بری چیز نہیں دیکھتے’ تو میں نے جواب دیا کہ اس کی وجہ چیچنیا میں روس کا سخت رویہ ہے جس میں انسانی حقوق کی نمایاں خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔

“پوٹن غصے سے لال پیلے ہو گئے۔ صدر کلنٹن نے بے یقینی کے عالم میں میری طرف دیکھا اور مجھے خدشہ لاحق ہو گیا کہ میں نے سربراہی اجلاس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ‘برائی’ [سے بچنے والے بندروں والی] پن’ لگائی تھی۔”

البرائٹ نے 200 سے زیادہ پن جمع کیے۔ 22 عجائب گھروں اور صدارتی لائبریریوں میں اِن کی نمائش کرنے کے بعد اب یہ پنیں امریکی سفارت کاری کے قومی عجائب گھر کی ‘ میری پنوں کے بارے میں جانیے‘ کے عنوان سے ایک مستقل نمائش کا حصہ بن چکی ہیں۔

ابتدا میں البرائٹ اس طرح کی نمائش کے تصور کے بارے میں محتاط تھیں۔ “مجھے پورا یقین ہے کہ ہنری کسنجر اپنے تعلقات یا جیمز بیکر اپنے جاذب نظر سوٹوں کی مدح سرائی نہیں کرتے تھے۔” تاہم انہیں خوشی ہے کہ [اِن کی پنوں] کو دیرپا کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، “مجھے اپنی پنوں کو سفارت کاری کے قومی عجائب گھر کوعطیہ کرنے پر فخر ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اِن کا مستقل ٹھکانہ وہی جگہ ہے جہاں سے اِن کی ابتدا ہوئی تھی۔”

اگراُن کی پسندیدہ پنوں کی بات کی جائے تو انہیں دو پنیں بہت پسند ہیں۔ اِن میں سے ایک اُن کی بیٹی، کیٹی البرائٹ کی پانچ برس کی عمر میں بنائی جانے والی پن ہے۔ جبکہ دوسری پِن کا تعلق سمندری طوفان، کیتھرینا سے بچ جانے والے ایک شخص سے ہے۔

البرائٹ کو دوسری پن نیو اورلینز میں اِس شہر میں تباہی مچانے والے سمندری طوفان کے ایک سال بعد ہونے والے ایک پروگرام کے دوران ایک نوجوان نے دی تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں فرانس میں نازیوں سے لڑتے ہوئے دو “پرپل ہارٹ” [بہادری کے تمغے]  حاصل کرنے والے اس نوجوان کے والد نے  یہ پن کیتھرینا کے دوران ہلاک ہونے والی نوجوان کی والدہ کو دی تھی۔

نوجوان نے بتایا کہ اُس کی والدہ البرائٹ کی مداح تھیں اور وہ اگر آج زندہ ہوتیں تو اُن کی خواہش ہوتی کہ وہ یہ پن البرائٹ کو دیں۔

انہوں نے کہا، “بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مجھے بولنے کے لیے الفاظ نہ ملتے ہوں، مگر اس تحفے نے تو مجھے یوں لگا جیسے  کہ میری قوت گویائی چھین لی ہو۔”

تاہم، ان کی سفارتی قدر سے ہٹ کر، “کیٹیز ہارٹ” اور ‘کیتھرینا پن’ جیسی پنیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زیورات کی قدر و قیمت سونے چاندی یا شاندار ڈیزائن سے نہیں طے پاتی بلکہ ہمارے ان جذبات سے طے پاتی ہے جو اِن سے جڑے ہوتے ہیں۔”