قريب 800 روز گزر چکے ہيں جب امريکی تيل کے عہديدار جو کہ “سٹگو 6” کے نام سے جانے جاتے ہيں، وينيزويلا ميں بغير کسی مناسب کاروائ کے گرفتار کر ليے گۓ تھے – اور ماڈورو حکومت کی جانب سے ان کی رہائ کے حوالے سے کوئ عنديہ سامنے نہيں آيا ہے۔
ان ميں سے پانچ اشخاص امريکہ اور وينيزويلا کی دہری شہريت رکھتے ہيں۔ جبکہ چھٹا شخص قانونی طور پر مستقل امريکی شہريت رکھتا ہے۔ تمام افراد امريکہ ميں کام کرتے ہيں جہاں سٹگو کا صدر دفتر اور ديگر دفاتر ہيں۔
نومبر 2017 ميں ان چھ افراد کو کاراکاس کے مقام پر پی ڈی وی ايس اے ميں ملاقات کے ليے بلايا گيا، يہ حکومت کے زير اثر کمپنی ہے اور سٹگو اسی کی ملکيت ہے۔
امريکی وزارت خارجہ کے ايليٹ ابرامز کے مطابق اس کے بعد سے ماڈورو کی حکومت نے ان چھ افراد کو “وينيزويلا کے عسکری عقوبت خانے ميں انتہائ خستہ حالات ميں ڈال رکھا ہے”۔ انھيں بغير کھڑکی کے قيد خانوں ميں رکھا گيا ہے اور “خوراک، سورج کی روشنی اور ورزش تک مستقل رسائ نا ہونے کے سبب وہ صحت کے مجموعی مسائل سے دوچار ہيں”۔
جنوری 2018 ميں ان پر سرکاری طور فرد جرم عائد کرنے کے بعد وينيزويلا کے حکام نے ماڈورو کے حکم پر 18 بار ملاقاتوں کا شيڈول طے کرنے کے بعد انھيں منسوخ کر ديا۔ وينيزويلا کے حکام نے اس بات کی حامی بھری تھی کہ مقدمہ کو سماعت سے پہلے کے مرحلے سے نکال ديا جاۓ گا۔ تاہم مقدمے کی پہلی سماعت جو کہ دسمبر ميں شيڈول کی گئ تھی، اسے بھی منسوخ کر ديا گيا۔
To the families of the Citgo 6: We will stand with you until your families are free and until Venezuela is free. To Nicholas Maduro — let our people go — then go! #VenezuelaLibre pic.twitter.com/FKhvLbR2A3
— Vice President Mike Pence (@VP) April 2, 2019
دسمبر 2019 ميں جبکہ ان چھ اشخاص کو عسکری اينٹيلی جنس کی عمارت ميں دو برس سے زيادہ کا عرصہ گزر چکا تھا، ماڈورو کی حکومت نے انھيں گھر ميں نظر بند کر ديا۔
ليکن يہ چھ امريکی اب بھی وينيزويلا کی سرزمين پر پوليس کی حراست ميں ہيں۔ امريکی حکومت بدستور يہ سوال کر رہی ہے کہ سٹگو 6 کب گھر لوٹيں گے؟
“ميں، امريکی عوام اور صدر ٹرمپ اپنے پياروں کی رہائ کے ليے مضبوطی سے کھڑے رہيں گے” نائب صدر پينس نے اپريل 2019 ميں سٹگو 6 کے خاندانوں کو بتايا کہ “ہم وينيزويلا ميں آزادی اور قانون کی حکمرانی کی بحالی تک مضبوطی سے کھڑے رہيں گے”۔