
3 مارچ، یا سپر منگل کو جب امریکہ کی 14 ریاستوں میں لاکھوں ووٹر ووٹ ڈالنے آئے تو ہم بھی وہاں موجود تھے۔ امریکی صدارتی عمل کے بارے میں خبریں دینے کے لیے ریاست ورجینیا کے اور دنیا بھر سے آئے صحافیوں کے ہمراہ ہم نے شمالی ورجینیا کا سفر کیا اور الیکشن اہل کاروں اور ووٹروں سے اُن کے تجربات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
شہری دلچسپی ابتدائی عمر میں ہی شروع ہو جاتی ہے
ورجینیا کے فالز چرچ میں پولنگ سٹیشن نمبر 705 کے چیف الیکشن آفیسر، رابرٹ مانسکر کو انتخابی کام کے ساتھ ابتدائی عمر میں ہی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ 1952 میں ہائی سکول کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے ٹیلی ویژن پر ایک پارٹی کا قومی کنونشن دیکھا اور انہیں آج تک یاد ہے کہ اس کا اختتام کیسے ہوا۔ 79 سالہ مانسکر کہتے ہیں، “میں وہاں بیٹھا بیٹھا اس عمل سے مبہوت ہو گیا … اور میں نے کہا، ‘ کون جیتنے جا رہا ہے؟'”
منگل کے روز کا ابتدائی انتخاب 33 واں انتخاب تھا جس میں مانسکر نے کام کیا۔ مگر ان کا کام آسان نہیں ہوتا۔ نہ صرف انہیں تازہ ترین انتخابی قوانین سے یاد رکھنے پڑتے ہیں بلکہ انہیں دیر تک کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس سکول کو جس میں انتخاب ہوتے ہیں سورج نکلنے سے پہلے پہلے ووٹنگ کے لیے تیار کرتے ہیں اور شام کو ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہونے کے بعد کاؤنٹی کو نتائج بھجواتے ہیں۔ مانسکر کہتے ہیں، “موجودہ مسائل کے بارے میں میری دلچسپی بار بار مجھے واپس کھینچ لاتی ہے۔”

کون سی پارٹی
ڈیموکریٹک پارٹی کے بنیادی انتخابات کا انعقاد اس لیے کیا گیا تاکہ پارٹی فیصلہ کر سکے کہ کون سا ڈیموکریٹ نومبر میں پارٹی کا امیدوار ہوگا۔ کیونکہ ورجینیا کا شمار اُن درجن بھر سے زیادہ ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں “اوپن پرائمری” یعنی جہاں بنیادی انتخاب سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ اسی لیے خود کو “میانہ رو ری پبلکن” کہنے والی میکلین کی رہائشی، جین چیمبرز بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کا انتخاب لڑنے والوں میں سے کسی ایک امیدوار کو ووٹ دے سکتی ہیں۔ (اِن ریاستوں میں ووٹر کسی بھی پارٹی کے بنیادی انتخاب میں ووٹ دے سکتے ہیں۔)
چیمبرز کہتی ہیں، “آپ کو معلوم کرنا پڑتا ہے کہ [صدارتی] انتخاب میں کون کون ہوگا اور اسی طرح … ہر انتخاب میں ووٹ ڈالنا بہت ضروری ہے چاہے وہ بنیادی، عام، مقامی کمیونٹی کونسل، کوئی بھی ہوں۔ بطور امریکی یہ ہمارا حق ہے۔”
ووٹ کے حقوق
اس سال کے انتخابات امریکی آئین کی اُس انیسویں ترمیم کے ایک سو سال پورے ہونے کے موقع پر ہو رہے ہیں جس کے تحت عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ اس سنگ میل کا حوالہ دیتے ہوئے اینگلا کولارس نے کہا، “مجھے اس پر بڑا فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں ووٹ دے سکتی ہوں؛ میں نے ہمیشہ اسی طرح محسوس کیا ہے۔”
خانہ جنگی کے بعد تعمیرنو کے دور میں افریقی نژاد امریکیوں نے (امریکہ کے) پورے جنوب میں بہت بڑی تعداد میں ووٹ دیئے اور اِن کے ووٹ دینے کے حق کو 1870ء میں قانونی شکل دی گئی جس کی توثیق آئین کی پندرھویں ترمیم کے ذریعے کی گئی۔ اس کے برعکس ریاستوں نے سیاہ فام ووٹروں کو ووٹ ٹیکس اور خواندگی کے امتحانات جیسی رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں رائے دہی کے حق سے محروم رکھنے کے طریقے ڈھونڈ نکالے۔ 1965ء کے ووٹنگ کے حقوق کے منظور ہونے تک سیاہ فام ووٹر اپنے جمہوری حقوق پوری طرح استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

70 سالہ اوپل ایلیٹ ایک افریقی نژاد امریکی خاتون ہیں جن کے والدین کیمن جزائر سے امریکہ آئے۔ وہ کہتی ہیں، “میرے نزدیک ووٹ نہ ڈالنا ووٹ کی بے حرمتی ہے۔”
ڈیبرا لٹمین اپنے سات سالہ بیٹے جیڈن فیٹر- لٹمین کے ہمراہ فالز چرچ میں ووٹ ڈالنے گئیں۔ وہ 2016ء میں جب صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے گئیں تب بھی وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر گئیں تھیں کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا بیٹا سمجھے کے ووٹ دینا کتنا اہم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہر آدمی کی ایک آواز ہے اور یہ اہم ہے کہ جیڈن بچپن میں ہی یہ بات جان جائے۔ لٹمین کہتی ہیں، “ہم حقیقی معنوں میں بہترین ملک ہیں کیونکہ ہمیں یہ آزادی حاصل ہے — یہ سب آزادیاں — یعنی تقریر کی آزادی، ووٹ دینے کی آزادی۔”