سیارچے کو پکڑنے میں ناسا کی مدد کرنے والا سائنس دان

کسی متحرک سیارچے سے نمونے جمع کرنے کا شمار ناسا کے عظیم ترین کمالات میں ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کام کرنے والوں میں سے ایک وینز ویلوی نژاد وہ امریکی تارک وطن بھی ہے جو اپنی زندگی کے خوابوں کی تعبیر پانے امریکہ آیا۔

گزشتہ اکتوبر میں ناسا کے ابتدائیات، طیفی تشریح، وسائل کی نشاندہی، سلامتی، سیارچے پر تنی توانائی، گردوغبار کی چادر کی تحقیق نامی (مخففاً اوسائرس ریکس کہلانے والے) خلائی جہاز نے بینو نامی سیارچے سے نمونے اکٹھے کیے۔ آج تک جتنے سیارچوں سے نمونے اکٹھے کیے گئے ہیں اُن میں سے یہ سیارچہ سب سے چھوٹا ہے۔

ہمبرٹو کیمپنز وینزویلا میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے ہی فلکیات میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے کہا، “رات کے وقت آسمان پر نظریں جما کر دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہوتا تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت ہے چیز اور اس میں سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ  موجود ہے۔”

جب یونیورسٹی میں تعلیم کا وقت آیا تو وینزویلا میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں کیمپنز فلکیات میں گریجوایشن کر سکتے۔ لہذا وہ ترک وطن کرکے امریکہ آ گئے۔ انہوں نے 1977ء میں کینسس یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور سیاروں کی سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے ایریزونا یونیورسٹی چلے گئے۔ وہ 1989ء میں امریکی شہری بن گئے۔

2002ء میں یونیورسٹی آف سنٹرل فلوریڈا (یو سی ایف) کے تدریسی عملے میں شامل ہونے سے پہلے کیمپنز نے تدرییس و تحقیق کے کاموں میں کئی برس گزارے۔ 2010ء میں ناسا نے خلا میں اوسائرس ریکس سے حاصل کردہ نمونوں کو زمین پر لانے والی ٹیم میں انہیں منتخب کیا۔

https://twitter.com/OSIRISREx/status/1318676256032985088

انہوں نے بتایا، “میں نے تو کبھی اپنے کسی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں ناسا کی اُس ٹیم کا حصہ بنوں گا جو کسی سیارچے سے نمونے حاصل کرکے زمین پر واپس لانے کے لیے ایک خلائی جہاز بھیجے گی۔”

کیمپنز نے سیارچے بینو کے جغرافیائی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس دانوں اور تصویریں اتارنے والے دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر کام کیا۔

 ہمبرٹو کیمپنز 6 اپریل 2019 میں کینیڈی خلائی مرکز کے ملازمین کو ناسا کے اوسائرس ریکس پروگرام کے بارے میں تازہ صورت حال بتا رہے ہیں۔ (NASA/Cory Huston)
ہاتھ میں مائیکروفون پکڑے، کھڑا ہوا ایک آدمی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے باتیں کررہا ہے (NASA/Cory Huston)

اس مشن کے تحت اوسائرس ریکس خلائی جہاز کو 3.4 میٹر لمبے میکانکی بازو کے ذریعے نمونہ حاصل کرنا تھا۔ اس میکانکی بازو کے سرے پر نمونہ حاصل کرنے کے لیے پیالہ نما شکل بنائی گئی تھی۔ خلائی جہاز کا سیارچے کے ساتھ تقریباً پانچ سیکنڈ تک رابطہ رہا۔

اکتوبر 2020 میں مشن کے دوران سیارچے پر مٹی کی حالت اتنی اچھی تھی کہ اس  جہاز نے ناسا کے ہدف سے زیاد نمونے اکٹھے کیے۔ اس جہاز کی زمین پر واپسی کا طے شدہ وقت ستمبر2023 ہے۔ اس کی واپسی کے بعد تحقیق کار نمونوں کا تجزیہ کریں گے۔

یو سی ایف میں کیمپنز کی اس تحقیق کے لیے ناسا اور سائنس کی قومی فاؤنڈیشن نے مالی وسائل فراہم کیے ہیں۔

کیمپنز 2021 – 2022 کی جیفرسن سائنس فیلوز پروگرام میں بھی شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تحت فلکیات میں اُن کی مسلسل تحقیق میں مدد کی جائے گی۔ اس پروگرام کو سائنس، انجینئرنگ اور طب کی قومی اکیڈمیاں چلاتی ہیں اور اس میں امریکہ کا محکمہ خارجہ اور امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ بھی تعاون کرتے ہیں۔

کیمپنز بتاتے ہیں کہ بینو سیارچے کا مشن ہمارے عام علم میں کس طرح کا اضافہ کرے گا۔ وہ کہتے ہیں، “اس طرح کے سیارچے یعنی اس قدیم سیارچے پر ایسے نامیاتی سالمے موجود ہیں جو زمین پر زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے موجود ہوا کرتے تھے۔ “وہ کہتے ہیں کہ اِن نمونوں کے ذریعے “ہو سکتا ہے کہ ہم جان سکیں کہ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔”