
ڈارٹ ماؤتھ یونیورسٹی کے مورخ، میتھیو ڈیلمونٹ کہتے ہیں کہ سیاہ فام کمیونٹیوں کو اپنی تاریخ کو یاد رکھنے اور اسے عزیز جاننے کے لیے اس کے نام وقف کسی ہفتے یا مہینے کی ضرورت نہیں۔
ہر سال جب فروری کے مہینے میں امریکہ میں سیاہ فاموں کی تاریخ کا مہینہ منایا جاتا ہے تو ڈیلمونٹ اس دوران سکول کے گروپوں کے سامنے اور کارپوریشنوں میں تقریریں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “انہوں نے [اس تاریخ کو] ڈائریوں، خاندانی ریکارڈوں، سیاہ فاموں کے اخبارات اور کہانیوں کی شکل میں محفوظ رکھا۔”
ہر سال منائے جانے والے اس مہینے کا آغاز کیسے ہوا
افریقی نژاد امریکیوں کی خدمات کو یاد رکھنے کا آغاز 1926 میں ‘نیگرو تاریخ کے ہفتے’ سے ہوا۔ [اس وقت ‘نیگرو’ کی اصطلاح استعمال کی گئی جسے بعد میں “سیاہ فام” یا “افریقی نژاد امریکیوں” سے بدل دیا گیا۔]
اس ہفتے کا وقت غلامی سے آزادی کا اعلان گانے والے صدر، ابراہام لنکن اور غلامی کے خلاف لڑنے والے اور غلامی سے فرار کے بعد سماجی مصلح بننے والے، فریڈرک ڈگلس کی سالگروں کی مناسبت سے مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ہفتہ تاریخ دان، کارٹر جی وڈسن کے ذہن کی تخلیق تھی۔ وڈسن کو اُس دن کا انتظار تھا جب سیاہ فام لوگوں کی کامیابیاں سارا سال منائی جانا تھیں۔

تاریخ کے ہفتے کا نتیجہ سیاہ فام طلبا کے سکولوں کے لیے تعلیمی مواد کی تیاری کی صورت میں نکلا۔ تاہم سفید فام طلبا کے بہت سے الگ تھلگ سکولوں میں معروف سیاہ فاموں کے بارے میں اس مواد کی پڑھائی نہ ہونے کے برابر تھی۔
مائیکل ہینز، سٹینفورڈ یونیورسٹی کے گریجوایٹ سکول آف ایجوکیشن میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔ وہ سیاہ فاموں کی تاریخ کی یاد منانے کے بارے میں ایک ویڈیو لیکچر میں، جس میں سماجی اور سیاسی مساوات کے لیے جدوجہد کا ذکر کیا گیا ہے، کہتے ہیں، “یہ آس وقت کے پڑھائی کے اُن روائتی نصابوں کے لیے ایک براہ راست چیلنج تھا جن میں سیاہ فام لوگوں کی عام طور پر تذلیل کی جاتی تھی اور اُن کی بطور انسان ہتک کی جاتی تھی۔ نیگرو تاریخ کا ہفتہ چند ایک قابل ذکر کامیابیوں کے بارے میں بات کرنے کے ایک موقعے سے زیادہ عمل کے لیے متحرک ہونے کی ایک اپیل تھی۔”

پچاس برس بعد امریکہ کے دو سو سالہ جشن کے دوران صدر جیرالڈ آر فورڈ نے سیاہ فاموں کی تاریخ کے ہفتے کی مدت کو ایک ہفتے سے بڑہا کر ایک مہنیہ کر دیا۔ تب سے یہ سیاہ فاموں کی تاریخ کا قومی مہینہ کہلاتا ہے۔ اس موقعے پر صدر فورڈ نے کہا کہ یہ وقت “سیاہ فام امریکیوں کے اکثر نظر انداز کیے جانے والے اُن کارناموں کے احترام کرنے کے موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ہے جو انہوں نے ہماری تاریخ میں زندگی کے ہر ایک شعبے میں انجام دیئے ہیں۔
اس مہینے کو منانے کے آج کے طور طریقے
اب تقاریر ہوتی ہیں اور مختلف قسم کی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ سکولوں کی توجہ کا مرکز آج کی امریکی تاریخ کی نامور شخصیات میں شمار ہونے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور روزا پارکس جیسے مشہور افریقی نژاد امریکی ہوتے ہیں۔ ڈیلمونٹ کہتے ہیں، “سیاہ فاموں نے اس تاریخ کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ سیاہ فاموں کی تاریخ کا مہینہ دوسروں کی یہ بات سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ سیاہ فام امریکیوں نے امریکہ پر کتنے زیادہ اثرات چھوڑے ہیں۔”
تاریخ کے نصابوں کا ایک بہت بڑا حصہ پہلے ہی سفید فام امریکیوں کے کارناموں پر مرکوز ہے۔ سیاہ فاموں کی تاریخ کا مہینہ ملک کے ماضی کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ڈیلمونٹ کہتے ہیں، “آپ سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ کو سمجھے بغیر امریکہ کی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے۔”

ڈیلمونٹ کا کہنا ہے کہ بلیک لائیوز میٹر نامی تحریک اور پولیس کی بربریت کے خلاف 2020 کے مظاہروں کے بعد تمام نسلوں اور پسہائے منظر کے حامل امریکیوں کو سیاہ فام امریکیوں کے تجربات کا زیادہ احساس ہونے لگا ہے۔
امریکیوں کو یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ان کی تاریخ زیادہ بھرپور اور زیادہ پیچیدہ ہے اور جیسا کہ انہوں نے سوچا تھا اُس کے مقابلے میں یہ یکساں طور پر کم مساوی اور معزز ہے۔ اب نئے سکالر سابقہ پسماندہ امریکیوں کی خدمات اور کہانیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔”
ایک مورخ کے طور پر ڈیلمونٹ ووٹنگ کے حقوق، غلامی اور امتیازی سلوک سمیت، قوم کے اچھے اور برے ماضی پر بحث کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ مشترکہ تاریخ کے بارے میں بات کرنا تقسیم کو ختم اور لوگوں کو متحد کر سکتا ہے۔