فن کے میدان میں سیاہ فام عورتوں کو ایک طویل مدت سے امریکہ کے ثقافتی منظر نامے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔
جیسا کہ صدر بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب نے امریکیوں کو باور کرایا، امینڈا گورمین شاعرہ جیسے سیاہ فام نوجوان آرٹسٹ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں اور دنیا کو مستقبل کے بارے میں اپنے تصور سے آگاہ کر رہے ہیں۔
سیاہ فام تاریخ کے مہینے کے حوالے سے، ہم موسیقی، ادب اور بصری فنون کی ماضی اور حال کی اہم شخصیات پر ایک نظر ڈال رہے ہیں۔
اِن پانچ پہل کاروں نے قومی، اور ہاں، بین الاقوامی منظر نامے پر اپنے نقوش چھوڑتے ہوئے، امریکی ثقافت کو بدل کر رکھ دیا اور اسے بلندیوں پر لے گئے۔
ایلا فٹز جیرالڈ

ایلا فٹز جیرالڈ اور امریکی جاز موسیقی لازم و ملزوم ہیں۔ “جاز کی ملکہ” نے نہ صرف 17 برس کی کم عمر میں ہارلیم کے اپالو تھیئٹر میں اپنے فن کی شروعات کیں بلکہ انہیں اپنی آواز کے گھٹتے بڑھتے زیروبم کے سلسلے اور ریکارڈوں کی ایک بڑی تعداد کے نتیجے میں دنیا بھر میں افسانوی مقام بھی حاصل ہوا۔ فٹزجیرالڈ گریمی ایوارڈ جیتنے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے 13 مزید گریمی ایوارڈ جیتے۔
ٹونی موریسن

ٹونی موریسن نے اُس طریقے میں ایک انقلاب برپا کیا جس طریقےسے سیاہ فام عورتوں کی روحانی زندگی کو افسانوں اور غیرافسانوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر بننے سے قبل، وہ رینڈم ہاؤس کے افسانوں کے شعبے کی پہلی سیاہ فام سینیئر ایڈیٹر ہوا کرتی تھیں۔ اُن کے ایوارڈوں کی فہرست میں پلٹزر پرائز اور آزادی کے صدارتی تمغے سمیت، 1993ء کا ادب کا نوبیل انعام بھی شامل ہے جو انہیں اُن کے ناول “بیلووڈ” پر دیا گیا۔ اس کتاب کو 2006ء میں نیویارک ٹائمز کی طرف سے گزرے ہوئے 25 برسوں کی بہترین کتاب بھی قرار دیا گیا۔
ریٹا ڈو

امریکی ملکہ الشعرا ریٹا ڈو ( Rita Dove ) نے 1993ء میں کہا، ” شاعری میں زبان اپنی خالص ترین اور طاقتور ترین شکل میں موجود ہوتی ہے۔ یہ یخنی کی ٹکیہ کی طرح ہوتی ہے: آپ اسے لیے پھرتے ہیں اور پھر یہ آپ کو تب غذائیت فراہم کرتی ہے جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ ڈو ادبی دنیا کی نشاۃ ثانیہ کی خاتون تھیں — یعنی ناول، ڈرامے، مختصر کہانیاں اور ادبی تنقید لکھنے والی — تاہم اُن کی شاعری نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ وہ 1993 سے لے کر 1995 تک لائبریری آف کانگریس کی ملکہ الشعرا مشیر رہیں۔
سیمون لی

مجسمہ ساز سیمون لی ایسے زبردست، اور شاندار مجسمے بناتی ہیں جو سیاہ فام عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اُن کا “برِک ہوم” نامی شاہکار اس کی ایک مثال پیش کرتا ہے۔ جمیکا کے تارک وطن کی یہ بیٹی پورے امریکہ اور دنیا بھر میں — کنسس سٹی، مزوری سے لے کر کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ تک — ہر جگہ اپنے مجسموں کی نمائشیں منعقد کر چکی ہے۔ وہ اپریل 2022 میں آرٹ کی مشہور زمانہ انسٹھویں “وینس بائی اینیل” نامی نمائش میں پہلی سیاہ فام امریکی خاتون کی حیثیت سے امریکہ کی نمائندگی کریں گیں۔
ایمی شیرالڈ

مصورہ ایمی شیرالڈ عام سیاہ فام امریکیوں کو روزمرہ کے کام کرتے ہوئے یک رنگے پسہائے منظر میں بنائی گئی اپنی تصویروں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ تاہم واشنگٹن میں “نیشنل پورٹریٹ گیلری” میں، یہ سابق خاتون اول مشیل اوباما کا پورٹریٹ تھا جو اِن کی بین الاقوامی شہرت کا سبب بنا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کس سے متاثر ہو کر انہوں نے مصوری شروع کی، شیرالڈ کا کہنا تھا کہ اس کے پیچھے اُن کی اپنے آپ کو — اور دوسرے سیاہ فام امریکیوں کو — ایک روائتی سفید فام آرٹ کی فہرست میں دیکھنے کی طاقت ہے۔ انہوں نے 2016ء میں نیشنل انڈؤمنٹ فار دا آرٹس (قومی وقف برائے آرٹس) کو بتایا کہ “اپنے اندر جھانکنا ایک ایسی چیز ہے جس کا سیاہ فاموں کی حیثیت سے ہمیں موقع نہں ملا۔ میرے نزدیک اس ثقافتی جگہ کو پر کرنا حقیقی معنوں میں اہم بن چکا ہے۔”