ٹیڈ ڈلینی واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی میں چوکیدار کی حیثیت سے آئے۔ جس وقت انہوں نے یونیورسٹی چھوڑی تو وہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈلینی کی کہانی ہے تو غیر معمولی، مگر اِن کا راستہ اور لاکھوں سیاہ فام افریقیوں کا راستہ مشترک ہے: یعنی تعصب پر قابو پانا، نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا، اور اپنی برادری اور اپنی قوم [کی خدمت] میں حصہ ڈالنا۔

ڈلینی کی پیدائش اور پرورش لیکسنگٹن، ورجینیا میں ہوئی، جہاں واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی واقع ہے۔ انہیں اٹلانٹا کے مور ہاؤس کالج میں پڑھنے کے لیے وظیفہ ملا۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک سیاہ فام کالج یا یونیورسٹی ہے۔ سیاہ فام یونیورسٹیوں اور کالجوں کو مخففاً ایچ بی سی یو کہا جاتا ہے۔ لیکن 1961ء کی شہری حقوق کی تحریک کے خلاف ردعمل کی وجہ سے ان کی والدہ ان کی سلامتی کے بارے میں فکرمند تھیں اور انہیں مورہاؤس کالج جانے کی اجازت نہیں دے رہیں تھیں۔
اس وقت کالجوں سے گریجوایشن کرنے والے طلبا میں افریقی نژاد امریکیوں کی نمائندگی کم تھی۔ بیچلر ڈگری حاصل کرنے والے سفید فام طلبا کی 9 فیصد شرح کے مقابلے میں ان کی شرح تین فیصد تھی۔ اس کی ایک وجہ جِم کرو دور کے وہ قوانین تھے جن کے تحت سیاہ فام طالبعلموں کے ساتھ نسل پرستانہ سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں روائتی طور پر سفید فام اداروں میں داخلے نہیں دیئے جاتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی میں ڈلینی کا پہلا عہدہ چوکیدار کا تھا۔ 1964ء تک یہ یونیورسٹی سیاہ فام طلبا کو داخلے نہیں دیتی تھی۔
اسی سال شہری حقوق کے منظور کیے جانے والے نئے قانون کے تحت نسل، رنگ، جنس، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر سرکاری کالجوں یونیورسٹیوں پر امتیازی سلوک برتنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس قانون کے تحت اُن تعلیمی اداروں میں بھی اس قسم کے امتیازی سلوک برتنے پر پابندی لگ گئی جو وفاق سے مالی امداد وصول کرتے تھے۔
چونکہ واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی ایک زیادہ مربوط یونیورسٹی بن چکی تھی، اس لیے ڈلینی نے دن کے وقت تجربہ گاہ میں ٹکنیشن کا کام کرتے ہوئے، جزوقتی طالبعلم کی حیثیت سے شبیہ کلاسوں میں داخلہ لے لیا۔
ایک دہائی تک جزوقتی ملازمت اور چار سال کل وقتی تعلیم کے بعد، ڈلینی نے آخرکار 1985ء میں 41 سال کی عمر میں انڈرگریجوایٹ ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ولیم اینڈ میری کالج میں اپنی تعلیلم جاری رکھی اور 1995ء میں تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس سال 1,287 سیاہ فام امریکیوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور اِن میں سے ایک ڈلینی بھی تھے۔
ڈلینی، واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے واپس آئے اور بعد میں تاریخ کے مضمون کے غیرمعینہ مدت کے پروفیسر بنے۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے افریقی نژاد امریکیوں کے مطالعاتی پروگرام کے شریک بانیوں میں سے تھے۔ وہ 2013 سے لے کر 2017 تک یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبے کے سربراہ رہے۔

تعلیم میں نسل پرستی کا ورثہ
حالیہ ترین اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل سیاہ فام انڈرگریجوایٹ طالبعلموں کی شرح (14 فیصد) اُس شرح سے بلند ہے جو امریکی آبادی میں سیاہ فاموں کی شرح (13.4 فیصد) ہے۔
مگر دہائیوں پر پھیلی نسلی علیحدگی اور داخلوں کی متعصبانہ پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2019ء میں صرف 26 فیصد سیاہ فام امریکیوں کے پاس بیچلر یا اس سے اونچی ڈگریاں تھیں۔ اس کے مقابلے میں سفید فاموں میں یہ شرح 40 فیصد تھی۔ تدریسی شعبے میں سیاہ فاموں کی تعداد بھی برابر نہیں۔
حالیہ ترین اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں پروفیسروں کی مجموعی تعداد کا چھ فیصد سیاہ فام ہیں اور غیرمیعادی مدت کے تمام پروفیسروں کی 96 فیصد تعداد ایچ بی سی یوز میں پڑھاتی ہے۔
تاہم غیر ایچ بی سی یو تعلیمی ادارے اس عدم مساوات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انسائڈ ہائر ایڈ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق:-
- سیئراکیوز یونیورسٹی تدریسی شعبے میں متنوع افراد کو ملازمتیں دینے کا ایک پروگرام شروع کرے گی۔
- رہوڈ آئی لینڈ سکول آف ڈیزائن، 10 نئے میعادی اور غیرمیعادی مدت کے پروفیسروں کو ملازمت دے رہا ہے۔ یہ اقدام سکول کے آرٹ اور ڈیزائن میں نسل کے پروگرام کا حصہ ہے۔
- سٹینفورڈ یونیورسٹی 10 نئے ایسی علمی ماہرین کو ملازمت دے گی جو امریکی معاشرے میں نسل کے معاملات کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔
- شکاگو یونیورسٹی کے انگریزی کا شعبہ اس سال کے گریجوایٹ داخلوں کی مدت کے لیے سیاہ فام علمی ماہرین کو ترجیح دے گی۔
سیاہ فام علمی ماہرین ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا تعلق ملازمتوں کے طریقہائے کار سے کہیں زیادہ بڑھکر ہے۔
2017ء میں شارلٹ وِل، ورجینیا میں سفید فام نسل پرستوں کے تشدد کے بعد، ٹیڈ ڈلینی اُس کمیشن کے تین پروفیسروں میں شامل تھے جو واشنگٹن اینڈ لی کے مسائل زدہ ماضی سے نمٹنے کے لیے اقدامات تجویز کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ یونیورسٹی، جزوری طور پر رابرٹ ای لی کے نام سے منسوب ہے جو وفاقی جنرل اور غلاموں کے مالک تھے۔
کمیشن کی رپورٹ 2018ء میں جاری کی گئی۔ اس کی سفارشات میں یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں سیاہ فام امریکیوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنا اور اقلیتی طبقات کو تعلیمی خدمات مہیا کرنے والے اداروں کے ساتھ ادلے بدلے کے تعلیمی پروگرام اور تدریسی عملے کے تبادلے کے پروگرام تشکیل دینا شامل تھا۔
ڈلینی جون 2020 میں، اپنے انتقال سے چھ ماہ قبل تاریخ کے اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کے نام پر ایک پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ قائم کی گئی، افریقی علوم میں لیکچروں کا ایک سلسلہ، اور بشریات اور بین المضامین علوم کا ایک سکالرشپ شروع کیا گیا۔
مولی مکلمور، واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی موجودہ سربراہ ہیں اور وہ ڈی لینی کی رفیق کار رہ چکی ہیں۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، “وہ ہمہ وقت اس ادارے کی توجہ اس کی ناکامی اور اپنا وعدہ پورا کرنے کی طرف دلانے کے لیے تیار رہتے تھے۔”
یہی وہ کام ہے جو نسلی مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے، کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں: یعنی تعلیمی، حکومتی اور سماجی ادارے جب اپنے وعدے پورا کرنے میں ناکام رہیں تو اس طرف ان کی توجہ دلانا۔