ٹونی موریسن نے ہفتہ وار رسالے نیویارکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، “ایک سیاہ فام خاتون مصنف ہونا کمتر مقام نہیں بلکہ لکھنے کے لیے ایک بلند تر مقام ہے۔ یہ میرے تخیل کو محدود نہیں کرتا؛ بلکہ یہ اسے وسعت دیتا ہے۔”
امریکہ میں سیاہ فام خواتین مصنفین، ناشرین، میگزین ایڈیٹروں اور ماہرین تعلیم کی حیثیت سے ادبی دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں۔
ذیل میں اُن چھ سیاہ فام خواتین کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے جدید امریکی ادبی ثقافت کے منظرنامے کو بدل دیا ہے:-

نیو یارک ٹائمز کے لیے پلٹزر انعام جیتنے والی سابق صحافی، ڈانا کنیڈی 2020 میں ایک بڑے اشاعتی ادارے، سائمن اینڈ شسٹر کی سربراہ بنیں۔ اس منصب پر فائز ہونے والی وہ پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔ انہوں نے اپنے عراق میں حصہ لینے والے سابقہ فوجی آنجہانی ساتھی کے بارے میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی یادداشتیں، جرنل فار جورڈن کے نام سے تحریر کیں۔

ڈان ڈیوس، 2021 کے موسم خزان میں امریکہ کے کھانے پکانے کے ممتاز جریدوں میں سے ایک، “بون ایپیٹی” کی ایڈیٹر انچیف بنیں۔ وہ کھانوں کی بہت شوقین ہیں۔ انہوں نے اس رسالے کے لیے اپنے پہلے مضمون میں لکھا، “جب کہانیوں والے اس رسالے میں ایک ایسے وقت ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے [مجھ سے] کتابیں چھاپنے کے پیشے کو خیرآباد کہنے کا کہا گیا تو [میرے لیے] انکار کرنا ناممکن تھا۔ اس وقت یہ [رسالہ] نسلی اور ثقافتی مساوات سے مطابقت پیدا کر رہا تھا۔”

فیشن میں طویل کیریئر کے بعد، سمیرا نصر 2020 میں “ہارپر بازار” نامی ماہانہ رسالے کی پہلی سیاہ فام ایڈیٹر انچیف بن گئیں۔ انہوں نے فروری 2021 میں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، “میں اپنے ساتھ مزید لوگوں کو پارٹی میں لانا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ اسے [رسالے کو] مزید دلچسپ بنا دے گا۔” ہارپر بازار سے پہلے، نصر نیویارک شہر میں ووگ اور الیور نامی رسالوں میں کام کرتی رہی ہیں۔
سب سے اوپر والی تصویر میں نظر آنے والی، گلوریا جین واٹکنز (1952–2021) اپنے قلمی نام بیل ہُکس سے جانی جاتی تھیں۔ ایک پروفیسر اور سماجی کارکن کے طور پر، ہُکس نے اس طریقے کو بدل دیا جس سے یونیورسٹیاں نسل، جنس اور طبقے کو ایک دوسرے سے ملا کر پڑھاتی تھیں۔ اپنی زندگی میں انہوں نے 30 سے زیادہ کتابیں لکھیں جن میں ان کی 1981 کی اساسی کتاب، کیا میں عورت نہیں؟: سیاہ خواتین اور حقوقِ نسواں شامل ہے۔ اس کتاب نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں حقوق نسواں کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے اس متن میں کہا، “میں ‘حقوقِ نسواں’ کو ازسرِنو موزوں بنانے کا انتخاب کر رہی ہوں۔ اس حقیقت پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کہ اس اصطلاح کے کسی بھی مستند معنی میں ‘حقوقِ نسواں کا حامی’ ہونے کا مقصد تمام لوگوں، عورتوں اور مردوں کا جنس پرست کردار کے نمونوں، تسلط اور جبر سے آزاد ہونے کی خواہش ہے۔”

اوکٹیویا ای بٹلر (2006-1947) میک آرتھر جینیئس فیلوشپ جیتنے والی پہلی سائنسی افسانہ نویس تھیں۔ بٹلر نے دو درجن سے زیادہ ناول لکھے جن میں سیاہ فام ناانصافی، خواتین کے حقوق، موسمیاتی بحران اور سیاسی مسائل کے موضوعات کو زیربحث لایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، “میں ان لوگوں کے بارے میں لکھتی ہوں جو غیر معمولی کام کرتے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ اسے سائنسی افسانہ کہا جاتا ہے۔”

جیسمین وارڈ ایک ناول نگار ہیں اور ٹولین یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جہاں وہ تخلیقی تحریر پڑھاتی ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی سے تحریر میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد، وارڈ نے اپنی پہلی کتاب 2008 میں شائع کی۔ اس کے بعد سے اب تک اُن کے چھ ناول شائع ہو چکے ہیں۔ وارڈ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اپنے تصانیف یعنی سالویج دی بونز (2011) اور سِنگ، انبریڈ، سِنگ (2017) پر دو بار نیشنل بک ایوارڈ جیتا۔