
امریکہ میں سیاہ فام عورتیں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ابتدا سے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی رہی ہیں۔
مورخ ڈینا ریمی بیری، پی ایچ ڈی، ٹیکساس یونیورسٹی، آسٹن میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے محکمہ خارجہ کے فارن پریس سنٹر میں 11 مارچ کی ایک بریفنگ میں کہا، “سیاہ فام عورتوں کا تعلق فعالیت کی میراث سے ہے۔ اور اس میراث کا آغاز تب ہوا جب وہ آزاد نہیں تھیں، جب انہیں غلام بنایا گیا، اور یہ [میراث] غلامی کے بعد بھی جاری رہی۔”
بیری نے کہا، “سیاہ فام عورتیں آج بھی عوامی سطح کی تنظیم سازی اور قومی سطح کی تنظیم سازی کی جدوجہد کر رہی ہیں اور انہیں استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں تاکہ ہم ایک زیادہ منصفانہ معاشرے کو یقینی بنا سکیں۔”

امریکہ میں غلام بنائے گئے افریقیوں پر اپنی تحقیق کے ذریعے، بیری نے سیاہ فام عورتوں کے آباواجداد کا طویل سلسلہ ڈھونڈا ہے جو سترھویں صدی کی پہلی دہائی تک پیچھے جاتا ہے۔ انہوں نے نائب صدر کملا ہیرس اور جارجیا کی ووٹ کے حقوق کی سرگرم کارکن، سٹیسی ابراہمز جیسی آج کی خواتین سیاست دانوں کے لیے اپنے حقوق — خاص طور پر ووٹ دینے کے حقوق، کے لیے راہیں ہموار کیں۔
بیری نے ان عورتوں کے بارے میں کہا جو امریکی انقلاب کی جنگ سے قبل سرگرم کارکن تھیں، “وہ انصاف کا مطالبہ کر رہی تھیں اور آزادی کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنی آوازوں کے سنے جانے کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنے جسموں کی حفاظت کرنے کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنے کنبوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہی تھیں۔”
حتی کہ امریکہ کے آزادی حاصل کرنے سے پہلے، بلکہ سیاہ فام افریقیوں کو غلام بنانے کے برطانوی شمالی امریکہ کے زیادہ تر علاقوں میں پھیلنے سے بھی پہلے، سیاہ فام عورتوں نے عدالتوں میں جنگ لڑی، جاگیروں کو ختم کرنے کے لیے مزدوروں کی ہڑتالوں کی قیادت کی، اور اپنی آزادی کے لیے درخواستیں دیں۔
بیری نے بتایا کہ ورجینیا کی نوآبادی میں غلام بنائی جانے والی ایک عورت نے جس کا نام ایلزبتھ کی تھا، اپنی آزادی کے لیے عدالت میں مقدمہ لڑا اور اُنہیں اور اُن کے نوزائیدہ بچے کو 1656ء میں آزدی ملی۔ ایک سو سال بعد امریکہ کی انقلابی جنگ کے دوران غلام بنائی جانے والی عورتوں نے مردانہ لباس پہنے اور اپنی شخصی آزادی اور برطانوی تسلط سے آزادی کی جنگ لڑی۔

انیسویں صدی سے پہلے اور غلامی کے خاتمے کے بعد، سوجورنر ٹروتھ اور ہنریٹا پرویس جیسی سیاہ فام خواتین نے اپنی سفید فام ساتھیوں کے ساتھ مل کر خواتین کی حق رائے دہی کی جنگ لڑی۔ لیکن عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک کے اندر بھی سیاہ فام عورتوں کو ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً احتجاجی قطاروں میں انہیں آخر میں کھڑا ہونے کا کہا جاتا تھا۔ سیاہ فام عورتیں گھبرائیں نہیں اور انہوں نے حق رائے دہی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں پورا عرصہ سیاہ فام افریقیوں کو قانونی طور پر علیحدہ رکھنے والے جم کرو دور کے قوانین کے باوجود، سیاہ فام عورتوں نے ملک کے طول و عرض میں ووٹروں کی رجسٹریشن کی مہمیں چلائیں۔ سیاہ فام خواتین سیاست دان صدی کے دوسرے نصف حصے میں سامنے آئیں۔ شرلی چزم 1960 کی دہائی کے آخر میں کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ 1972ء میں صدر کا انتخاب لڑنے والی پہلی سیاہ فام خاتون بھی تھیں۔

بیری فعالیت اور قیادت کی میراث کو آگے بڑہانے کا سہرا اِنہی خواتین کے سر باندھتی ہیں جن کی وجہ سے ہیرس، ابراہمز، کمیونٹیوں کو منظم کرنے والی لاٹوشا براؤن اور دیگر سیاہ فام خواتین کے لیے کامیاب ہونا ممکن ہوا۔
بیری نے کہا، “ایسی سیاہ فام خواتین کی ایک طویل میراث ہے جو اس سطح کی فعالیت کا کام کرتی چلی آ رہی ہیں۔”
