سیاہ فام عورتیں ہمیشہ سے رائے دہی کے حقوق کی لیڈر چلی آ رہی ہیں

کملا ہیرس سٹیج پر تقریر کر رہی ہیں اور پس منظر میں امریکی پرچم دکھائی دے رہا ہے (© Michael Perez/AP Images)
نائب صدر کی انتخابی مہم کے دوران نومبر 2020 میں کملا ہیرس فلاڈیلفیا میں ایک ڈرائیو اِن جلسے کے دوران خطاب کر رہی ہیں۔ (© Michael Perez/AP Images)

امریکہ میں سیاہ فام عورتیں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ابتدا سے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی رہی ہیں۔

مورخ ڈینا ریمی بیری، پی ایچ ڈی، ٹیکساس یونیورسٹی، آسٹن میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے محکمہ خارجہ کے فارن پریس سنٹر میں 11 مارچ کی ایک بریفنگ میں کہا، “سیاہ فام عورتوں کا تعلق فعالیت کی میراث سے ہے۔ اور اس میراث کا آغاز تب ہوا جب وہ آزاد نہیں تھیں، جب انہیں غلام بنایا گیا، اور یہ [میراث] غلامی کے بعد بھی جاری رہی۔”

بیری نے کہا، “سیاہ فام عورتیں آج بھی عوامی سطح کی تنظیم سازی اور قومی سطح کی تنظیم سازی کی جدوجہد کر رہی ہیں اور انہیں استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں تاکہ ہم ایک زیادہ منصفانہ معاشرے کو یقینی بنا سکیں۔”

 ایک عورت کاغذات اور موبائل فون ہاتھ میں پکڑے سڑک کنارے کھڑی ہے (© Brynn Anderson/AP Images)
آڈری ایلن جولائی 2020 میں پاؤڈر سپرنگ، جارجیا کے علاقے میں سڑک کنارے چل رہی ہیں جہاں وہ انتخابات کے دن سے قبل ووٹ دینے کے لیے رجسٹریشن فارم تقسیم کر رہی ہیں۔ (© Brynn Anderson/AP Images)

امریکہ میں غلام بنائے گئے افریقیوں پر اپنی تحقیق کے ذریعے، بیری نے سیاہ فام عورتوں کے آباواجداد کا طویل سلسلہ ڈھونڈا ہے جو سترھویں صدی کی پہلی دہائی تک پیچھے جاتا ہے۔ انہوں نے نائب صدر کملا ہیرس اور جارجیا کی ووٹ کے حقوق کی سرگرم کارکن، سٹیسی ابراہمز جیسی آج کی خواتین سیاست دانوں کے لیے اپنے حقوق — خاص طور پر ووٹ دینے کے حقوق، کے لیے راہیں ہموار کیں۔

بیری نے ان عورتوں کے بارے میں کہا جو امریکی انقلاب کی جنگ سے قبل سرگرم کارکن تھیں، “وہ انصاف کا مطالبہ کر رہی تھیں اور آزادی کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنی آوازوں کے سنے جانے کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنے جسموں کی حفاظت کرنے کے لیے لڑ رہی تھیں، وہ اپنے کنبوں کی حفاظت کے لیے لڑ رہی تھیں۔”

حتی کہ امریکہ کے آزادی حاصل کرنے سے پہلے، بلکہ سیاہ فام افریقیوں کو غلام بنانے کے برطانوی شمالی امریکہ کے زیادہ تر علاقوں میں پھیلنے سے بھی پہلے، سیاہ فام عورتوں نے عدالتوں میں جنگ لڑی، جاگیروں کو ختم کرنے کے لیے مزدوروں کی ہڑتالوں کی قیادت کی، اور اپنی آزادی کے لیے درخواستیں دیں۔

بیری نے بتایا کہ ورجینیا کی نوآبادی میں غلام بنائی جانے والی ایک عورت نے جس کا نام ایلزبتھ کی تھا، اپنی آزادی کے لیے عدالت میں مقدمہ لڑا اور اُنہیں اور اُن کے نوزائیدہ بچے کو 1656ء میں آزدی ملی۔ ایک سو سال بعد امریکہ کی انقلابی جنگ کے دوران غلام بنائی جانے والی عورتوں نے مردانہ لباس پہنے اور اپنی شخصی آزادی اور برطانوی تسلط سے آزادی کی جنگ لڑی۔

 غلامی کے خاتمے کی حامی اور عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی، سوجرنر ٹروتھ کی 1864ء کی ایک تصویر۔ اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ہے: "میں حقیقت کی حمایت کرنے کے لیے سایہ بیچتی ہوں۔" (© Underwood Archives/Getty Images)
غلامی کے خاتمے کی حامی اور عورتوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی، سوجرنر ٹروتھ کی 1864ء کی ایک تصویر۔ اس کے نیچے یہ عبارت لکھی ہے: “میں حقیقت کی حمایت کرنے کے لیے سایہ بیچتی ہوں۔” (© Underwood Archives/Getty Images)

انیسویں صدی سے پہلے اور غلامی کے خاتمے کے بعد، سوجورنر ٹروتھ اور ہنریٹا پرویس جیسی سیاہ فام خواتین نے اپنی سفید فام ساتھیوں کے ساتھ مل کر خواتین کی حق رائے دہی کی جنگ لڑی۔ لیکن عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک کے اندر بھی سیاہ فام عورتوں کو ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً احتجاجی قطاروں میں انہیں آخر میں کھڑا ہونے کا کہا جاتا تھا۔ سیاہ فام عورتیں  گھبرائیں نہیں اور انہوں نے حق رائے دہی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

بیسویں صدی کے اوائل میں پورا عرصہ سیاہ فام افریقیوں کو قانونی طور پر علیحدہ رکھنے والے جم کرو دور کے قوانین کے باوجود، سیاہ فام عورتوں نے ملک کے طول و عرض میں ووٹروں کی رجسٹریشن کی مہمیں چلائیں۔ سیاہ فام خواتین سیاست دان صدی کے دوسرے نصف حصے میں سامنے آئیں۔ شرلی چزم  1960 کی دہائی کے آخر میں کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ 1972ء میں صدر کا انتخاب لڑنے والی پہلی سیاہ فام خاتون بھی تھیں۔

 شرلی چزم اور ایک آدمی کسی عورت سے باتیں کر رہے ہیں (© Owen Franken/Corbis/Getty Images)
شرلی چزم کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں اور وہ 1968 سے لے کر 1979 تک کانگریس کی رکن رہیں۔ تصویر میں وہ 1972ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں کسی بڑی سیاسی پارٹی کے ذریعے پہلی سیاہ فام صدارتی امیدوار کی حیثیت سے چلائی جانے والی اپنی مہم کے دوران۔ (© Owen Franken/Corbis/Getty Images)

بیری فعالیت اور قیادت کی میراث کو آگے بڑہانے کا سہرا اِنہی خواتین کے سر باندھتی ہیں جن کی وجہ سے ہیرس، ابراہمز، کمیونٹیوں کو منظم کرنے والی لاٹوشا براؤن اور دیگر سیاہ فام خواتین کے لیے کامیاب ہونا ممکن ہوا۔

بیری نے کہا، “ایسی سیاہ فام خواتین کی ایک طویل میراث ہے جو اس سطح کی فعالیت کا کام کرتی چلی آ رہی ہیں۔”

 رات کے وقت دو عورتیں افق کے اس پار دیکھ رہی ہیں (© John Locher/AP Images)
تب کی سینیٹر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نائب صدر کی امیدوار، کملا ہیرس اکتوبر 2020 میں لاس ویگاس میں ایک انتخابی مہم کے دوران ایک سیاہ فام خاتون سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© John Locher/AP Images)