سیاہ فام مسلمان ابتدا ہی سے امریکی کہانی کا حصہ چلے آ رہے ہیں اور آج بھی وہ امریکی ثقافت کے تنوع کے تانے بانے میں رنگ بھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پہلے مسلمان امریکہ کے ایک آزاد ملک کے طور پر قائم ہونے سے بہت پہلے یعنی 500 سال قبل امریکہ آئے۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ مسلمان محققین سولہویں صدی کی پہلی دہائی میں نوآبادیاتی مہموں کے ہمراہ امریکہ آئے۔
بعد میں مسلمانوں کو مغربی افریقہ سے زبردستی لائے گئے غلاموں کے طور پر لایا گیا۔ علمی ماہرین کے اندازوں کے مطابق امریکہ میں تقریباً 30 فیصد غلام مسلمان تھے۔ غلاموں کی ڈائریوں سمیت تاریخی ریکارڈ میں ان غلام مسلمانوں کی زندگیوں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا گیا ہے جن میں سے کچھ نے عربی تحریریں لکھیں جبکہ دیگر چھپ کر اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے۔
لائبریری آف کانگریس میں نمائش کے لیے رکھی جانے والی ایک نوادر، تھامس جیفرسن کا 1734کا قرآن کا ایک نسخہ ہے۔ عالمی مذاہب اور قانونی نظاموں کے بارے میں متجسس، جیفرسن نے قانون کے طالب علم کے طور پر قرآن کا یہ نسخہ حاصل کیا۔ جب جیفرسن نے امریکی آئین کا حصہ بننے والے مذہبی آزادی کے اصول کے بارے میں لکھا تو بعض سکالر جیفرسن پر مرتب ہونے والے اثرات میں سے اس کی طرف ایک اثر کے طور پر اشارہ کرتے ہیں۔
کیتھ ایلی سن2007 میں اور آندرے کارسن 2008 میں کانگریس کے منتخب ہونے والے پہلے سیاہ فام امریکی مسلمان تھے۔ انہوں نے جیفرسن کے قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا۔ (شیئر امیریکا کے قارئین اب اس نسخے کو دبئی، متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ورلڈ ایکسپو کے امریکی پیویلین میں نمائش کے لیے رکھا دیکھ سکتے ہیں)۔

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق آج سیاہ فام مسلمان امریکہ میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی کا 20% ہیں۔ تقریباً 70 فیصد سیاہ فام مسلمان امریکہ میں پیدا ہوئے جبکہ 49 فیصد مسلمانوں کا شمار اسلام قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے سیاہ فام مسلمان کمیونٹیوں میں شہری علاقوں اور امریکہ کے شمال مشرقی شہروں میں رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
محمد علی اور میلکم ایکس جیسے سیاہ فام مسلمان امریکیوں نے شہری حقوق کی تحریک میں اور عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ آرٹ، کاروبار، کھیلوں اور دیگر شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ان کی سیاہ فام اور مسلم شناختوں کے باہمی تعلق کی حامل شراکتیں ایک منفرد نقطہ نظر پیش کرتی ہیں اور یہ امریکہ کی کہانی اور تنوع کا اہم حصہ ہیں۔ آپ ان کے بارے میں افریقی نژاد امریکیوں کی تاریخ اور ثقافت کے سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے قومی عجائب گھر سے مزید بہت کچھ جان سکتے ہیں۔
یہاں بعض اُن سیاہ فام مسلمان امریکیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے امریکہ اور دنیا میں پاپ کلچر پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔
کھلاڑی

باکسنگ اور باسکٹ بال کے محمد علی، کریم عبدالجبار اور حکیم اولاجوان جیسے عظیم کھلاڑیوں کا شمار امریکہ کے نامور ترین سیاہ فام مسلمانوں میں ہوتا ہے۔
اولمپیئن، ابتہاج محمد نے اُس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے اولمپکس میں حجاب پہننے والی پہلی امریکی خاتون کے طور پر 2016 میں امریکی ٹیم کی نمائندگی کی۔ انہوں نے شمشیر زنی کے مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتا جس سے متاثر ہو کر اگلے سال پہلی مرتبہ باربی گڑیا [کھلونے] کو حجاب پہنایا گیا۔ اس باربی گڑیا کا تعلق میٹل کے “شیرو” [شی-ہیرو] نامی سلسلے میں تیار کی جانے والی گڑیوں سے تھا۔
اداکار

ماہرشالہ علی 2017 میں مون لائٹ فلم میں اپنی اداکاری پر آسکر انعام جیتنے والے پہلے مسلمان اداکار ہیں۔ انہوں نے 2019 میں یہ انعام دوبارہ جیتا۔ دوبارہ انہیں یہ انعام فلم گرین بک میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے ایک ایسے موسیقار کا کردار ادا کرنے پر ملا جو ایک سیاہ فام افریقی نژاد امریکی ہے اور جسے امریکہ کے جنوبی علاقوں میں اپنے فن کے مظاہروں کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اُن کے ساتھی سیاہ فام مسلمان اداکار ڈیو شپیل اپنی سٹینڈ اپ کامیڈی [براہ راست سسٹیج سے پیش کیا جانے والا مزاح] اور طنز کے لیے مشہور ہیں۔ شپیل انٹرویوز میں واشنگٹن میں اپنے گھر کے سامنے سڑک کے پار پیزا کے سٹور میں میں کام کرنے والے مسلمان ملازمین سے دوستی کرنے کے بعد نوعمری میں اسلام قبول کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
موسیقار
بہت سے مشہور سیاہ فام ریپر اور موسیقار مسلمان ہیں۔ اس فہرست میں ایکون، عالیہ شریف، بسٹا رائمز، لوپ فیاسکو، (جو پہلے موس ڈیف کے نام سے جانے جاتے تھے) یاسین بے، نیٹو ڈین اور (اوپر دکھئے گئے) ٹی پین شامل ہیں۔
اُن کے نغموں میں اُن کے آبائی شہروں کی زندگیوں سے لے کر “بلیک لائیوز میٹر” نامی تحریک تک مختلف موضوعات پر خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یا سین بے اپنے البمز کے پہلے گانوں کے آغاز میں بالعموم اسلامی افتتاحی دعا (“شروع اللہ کے نام سے جو سب سے زیادہ مہربان، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے”) پڑھتے ہیں۔
2014 میں، عالیہ شریف نے کیلی فورنیا میں ایک ہپ ہاپ کنسرٹ کا انعقاد کیا جس کا نام “دی حجاب کرانیکلز” تھا اور اس میں شامل تمام آرٹسٹ مسلمان خواتین تھیں۔
ماڈلز

ماڈل ایمان نے مائیکل جیکسن کی “ریممبر دی ٹائم” میوزک ویڈیو میں ملکہ کا کردار ادا کیا تھا۔ صومالی نژاد امریکی، ایمان کیلون کلائین، ایوز ساں لارانٹ اور ورساچی جیسی مشہور کمپنیوں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔
حلیمہ عدن بھی صومالی نژاد امریکی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سٹیج پر حجاب پہن کر چلنے والی پہلی ماڈل ہیں۔ اُن کی تصاویر کئی ایک رسالوں کے سرورقوں پر چھپ چکی ہیں۔ اِن میں ایلیور، سپورٹس الیسٹریٹڈ اور ووگ شامل ہیں۔