
جب ناسا کے سائنس دانوں نے بینیٹا یانی کے آبائی ملک سینی گال میں دوربینیں لگائیں تو اسے فلکیات کے بارے میں بہت کم علم تھا اور اسے یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کے فلکی سائنس میں مستقبل بنانے کا کوئی امکان بھی ہو سکتا ہے۔
کیمیکل انجینئرنگ کی اس 20 سالہ طالبہ نے یہ جاننے کی ٹھانی کہ امریکہ کی 21 دوربینیں سینی گال کے دیہی علاقوں میں کیوں نصب کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے ایک رات سیاروں کے مشاہدات میں مصروف سائنس دانوں کی ٹیم کی سربراہ ایڈریانا اوکیمپو سے بات کی۔ یانی نے اپنا تعارف کرانے کے بعدر اوکیمپو کو رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی پیشکش کی۔ چند گھنٹے بعد وہ امریکی اور سینی گالی سائنس دانوں کے ہمراہ کھڑی نظام شمسی کی دوردراز وسعتوں سے معلومات اکٹھی کر رہی تھیں۔
یہ یانی کا پہلا فلکیاتی تجربہ تھا مگر انہیں امید ہے کہ یہ آخری نہیں ہو گا۔
انہوں نے ایک ای میل میں کہا، ”اس مشن نے میرے اس یقین کی توثیق کر دی ہے کہ نوعمری میں بھی بڑے بڑے خواب دیکھے جا سکتے ہیں اور نہ توعمر اور نہ ہی تجربہ آپ کی زندگی میں رکاوٹیں بن سکتے ہیں۔”
مقامی سائنس دانوں کے ساتھ شمولیت
فلکی مشاہدات کے لیے مہینوں پر مشتمل تفصیل سے تیاری کرنے کی ضورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سائنس دان درست وقت پر درست مقام پر موجود ہوں۔ ایک قدیم سیاروی چٹان کا مشاہدہ کرنے کی درست جگہ سینی گال میں تھی۔ چنانچہ 4 اگست کو امریکہ اور سینی گال کے سائنس دانوں نے 2 میٹر لمبی دوربین کے ذریعے “کوئپر بیلٹ کے اجرامِ فلکی میں سے ایک یعنی 2014 ایم یو 69″ کا مشاہدہ کیا۔ ہماری زمین سے اس خلائی چیز کا فاصلہ چھ ارب کلومیٹر ہے۔
سینی گال میں فلکیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ہاتھ بٹایا۔ ان میں سے بیشتر نے اتنی بڑی دوربینوں پر پہلی مرتبہ کام کیا۔
ڈاکار میں امریکی سفارت خانے کے عہدیدار ہیتھ بیلی بتاتے ہیں، ”اگرچہ وہ (سینی گالی فلکیات دان) پی ایچ ڈی ہیں اور انہوں نے فلکیات کے بارے میں باضابطہ تعلیم حاصل کر رکھی ہے مگر انہیں عملی میدان میں کام کرنے والے اس طرح کے تجربہ کار سائنس دانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔”

اِس مشاہداتی ڈیٹا سے سائنس دانوں کو اُس خلائی ملبے اور دیگر ایسے سیاروی مادوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی جو اب تک کی تاریخ میں طویل ترین فاصلہ طے کرنے والے اُس تحقیقی خلائی جہاز کی پرواز میں خلل ڈال سکتے ہیں جو یکم جنوری 2019 کو ایم یو 69 کے قریب سے پرواز کرتا ہوا گزرے گا۔
یہ منصوبہ ناسا کے نیو ہورائزن نامی مشن کا حصہ ہے۔ اس مشن کا مقصد پلوٹو کا پہلی مرتبہ جائزہ لینا اور نظام شمسی کے دور دراز کی بیرونی وسعتوں کے بارے میں جاننا ہے۔
کمیونٹی کی شمولیت
جب یہ تعین ہوگیا کہ سینی گال ایم یو 69 کے خطِ پرواز کے ساتھ ساتھ واقع ہے تو ناسا اور امریکی سفارت خانے نے سینی گال کی حکومت کے ساتھ مل کر اس مشن کی کامیابی کو یقینی بنانے اور مقامی لوگوں کو اس میں شامل کرنے پر کام شروع کر دیا۔
شام کے اوقات میں مشاہدے سے پہلے مقامی سینی گالی لوگ سائنس دانوں کو اپنی دوربینیں تیار کرتا دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں اور بعض کو تو ان کے ذریعے خلا میں جھانکنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
بیلی کا کہنا ہے، ”ہمیں امید ہے کہ سینی گال کے کسی گاؤں میں غیرمعمولی ذہانت کے مالک کسی نوعمر بچے یا بچی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ وہ بھی خلائی سائنس دان بن سکتا/سکتی ہے۔”
مقامی لوگوں کو چھپی ہوئیں شخصیات نامی وہ خصوصی فلم بھی دکھائی جاتی ہے جس میں ناسا کے ابتدائی مشنوں میں افریقی نژاد امریکی خواتین کے کرداروں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فلم دکھانے سے پہلے اوکیمپو اور دیگر خواتین سائنس دان سائنس میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر ایک مباحثے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اوکیمپو بتاتی ہیں، ”سینی گال کے لوگ ہماری کائنات کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہماری ملاقات بہت سی باصلاحیت لڑکیوں سے ہوئی جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں اپنے مستقبل بنانا چاہتی ہیں۔ انہیں بس مزید مثالی شخصیات اور مواقعوں کی ضرورت ہے۔”
سابقہ تجربے کے فقدان سے یانی کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔ دوربین نمبر 12 پر سائنس دانوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد فلکیات کے حوالے سے ان کا زاویہ نگاہ اور انہیں دستیاب مواقع بنیادی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ”اب میں اپنی خواہشات کی لمبی فہرست میں ایک دن ”ناسا کے ساتھ کام کرنا” بھی شامل کر سکتی ہوں۔”