
ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویغوروں اور دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں پر ظلم و جبر کے ایک حصے کے طورپر چینی کمیونسٹ پارٹی ( سی سی پی) نے عورتوں کی کثیر تعداد میں نس بندی کی ایک تحریک چلا رکھی ہے۔
واشنگٹن کے جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن نامی ایک تھنک ٹینک نے چینی حکومت کی دستاویزات اور متاثرین کے انٹرویوز کے مدد سے نس بندی، پیدائش کے لازمی کنٹرول اور جبری اسقاط حمل کے ذریعے مغربی صوبے (شنجیانگ) میں مذہبی اقلیتوں میں پیدائش کی شرحوں پر پابندی لگانے کی سی سی پی کی ایک سال پر پھیلی کوششوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
29 جون کو شائع کی جانے والی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2015 اور 2018 کے درمیان ویغور آبادیوں والے دو ضلعوں میں آبادی میں اضافے کی شرح میں 84 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
Thanks to @AP for updating the attribution in this important sterilization chart, the data for which I collated and computed (bottom right). https://t.co/DSDNGXNXo0 pic.twitter.com/DGnerJdX7F
— Adrian Zenz (@adrianzenz) June 29, 2020
ٹوئٹر:
اس اہم چارٹ میں اُن اعداد و شمار میں تازہ ترین اعداد و شمار شامل کرنے پر اے پی کا شکریہ جو میں نے تیار کیے اور جمع کیے تھے۔ (نیچے دائیں طرف)۔ https://t.co/DSDNGXNXo0 pic.twitter.com/DGnerJdX7F
29 جون کو ایک بیان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا کہ اس رپورٹ کے “چونکا دینے والے افسوسناک انکشافات سی سی پی کے کئی دہائیوں کے اُن طریقوں سے مطابقت رکھتے ہیں جو انسانی زندگی کے تقدس اور بنیادی انسانی وقار کے احترام کو یکسر نظرانداز کرنے کے ثبوت ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا، “ہمارا چینی کمیونسٹ پارٹی کو کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر اِن وحشت ناک طریقوں کو ختم کرے۔”
جیمز ٹاؤں فاؤنڈیشن رپورٹ ویغور ثقافت کو مٹانے کی وسیع تر کوششوں کو سی سی پی کی نس بندی کی مہم کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ سی سی پی نسلی اقلیتوں کو چین کے غلبے والی ہن نسل میں مدغم ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ دیگر کوششوں میں ویغور عورتوں کو ڈرا دھمکا کر ناپنسدیدہ شادیوں پر مجبور کرنا اور مسلمانوں کو اپنی مذہبی عبادات سے منع کرنا شامل ہیں۔

2017ء سے لے کر آج تک سی سی پی دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور مسلمان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو حراستی کیمپوں میں بند کر چکی ہے جہاں قیدیوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناختوں کو ترک کرنے اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ حلفیہ وفاداری پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں اقلیتوں کی پیدائشوں کی شرحوں کو منظم طریقوں سے دبانے کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ایک نسلی اقلیت کی کاؤنٹی میں حکومت نے سال 2019 میں “بچے پیدا کرنے کی عمر کی تمام شادی شدہ عورتوں کی 34 فیصد” تعداد کی نس بندی کا ہدف مقرر کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء میں “پورے چین میں عورتوں کے جسم میں ائی یو ڈی [انٹرا یوٹرائن ڈیوائس] کہلانے والے مانع حمل کے جو آلے رکھے گئے اُن میں سے 80 فیصد آلے شنجیانگ کی عورتوں میں رکھے گئے۔” بچوں کی پیدائش کو کنٹرول کرنے والے یہ الے، زیادہ تر صرف شنجیانگ میں استعمال کیے گئے حالانکہ اس صوبے میں چین کی مجموعی آبادی کا 1.8 فیصد رہتا ہے۔

15 جون کو ایک ویغور خاتون، زمرد داوود نے اپنے ہاتھ میں وہ فون اٹھا رکھا ہے جس پر اُن کے بچوں کی تصویر ہے۔ (© Nathan Ellgren/AP Images)
جو عورتیں پیدائش کے کنٹرول، اسقاط حمل یا نس بندی پر راضی نہیں ہوتیں یا جن کے بہت زیادہ بچے ہوتے ہیں انہیں حراست میں لیے جانے کے خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ویغور خاتون، زمرد داوود پر دو کی بجائے تین بچے پیدا کرنے کی وجہ سے جرمانہ کیا گیا۔ ایک مرتبہ نظربند کیے جانے کے بعد زمرد کو نس بندی کا آپریشن کروانا پڑا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو انہیں دوبارہ نظربند کیے جانے کے خطرے کا سامنا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ آپریشن کے بعد ہوش میں آنے پر انہیں اپنے جسم کے مخصوص نسوانی عضو میں درد محسوس ہو رہا تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ وہ (اپنے جسم) کی کوئی چیز کھو بیٹھی ہیں۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، “میں بہت ناراض تھی۔ میں چاہتی تھی کہ میرا ایک اور بیٹا ہو۔”