شاعرہ امینڈا گورمین کا ایک نئے امریکہ کے نام پیغام

واشنگٹن کے کسی جانے پہچانے شاعر کے مشاعرے میں بالعمومم  ڈیڑھ  سے دو سو تک سامعین آ جاتے ہیں۔ مگر کالج سے ابھی ابھی فارغ ہونے والی امینڈا گورمین 20 جنوری کی ستاروں بھری صدارتی تقریبِ حلف برداری میں شامل ہوئیں اور ممکنہ طور پر ٹیلی ویژن کے لاکھوں کروڑوں ناظرین تک جا پہنچیں۔

گورمین صدارتی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے والی سب سے کم عمر شاعرہ ہیں۔ انہوں نے امریکی تاریخ میں معمر ترین صدر، جوزف آر بائیڈن کے منصب سنبھالنے کے اعزاز میں اپنی نظم “دا ہل وی کلائمب” (پہاڑی جس پر ہمیں چڑھنا ہے)  پڑھی۔

گورمین صدارتی تقریبِ حلف برداری کی چھٹی افتتاحی شاعر ہیں۔ (دیگر میں رچرڈ بلانکو، الزبتھ الیگزینڈر، ملر ولیمز، مایا اینجلو اور رابرٹ فراسٹ شامل ہیں۔) انہوں نے ڈرامائی اشاروں اور آواز کے جاندار زیر و بم سے نظم پڑھی اور شاعری کے ساتھ ساتھ فن اداکاری کا مظاہرہ بھی کیا۔

 صدارتی تقریبِ حلف برداری میں تقریر کرتی ہوئی امینڈا گورمین کی تصویر اور اس پر چسپاں تحریر (State Dept./Photo: © Saul Loeb/AP Images)
(State Dept./Photo: © Saul Loeb/AP Images)

خاتون اول جِل بائیڈن کا تجویز کردہ، گورمین کا نام شاید عام ڈگر سے ہٹا ہوا دکھائی دیا ہو، کیونکہ امریکی ادب کی ایک جانی پہچانی اور پیاری شخصیت، فراسٹ نے جب صدارتی تقریبِ حلف برداری میں اپنی نظم پڑھی تو اُن کی عمر 86 برس تھی۔ چونکہ جو بائیڈن 29 برس کی عمر میں امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے، اس لیے یہ انتخاب نوجوان نسلوں پر اعتماد اور امریکہ کے لیے اُن کی امنگوں کی علامت ہے۔

گورمین کی نظم بائیڈن کی جمہوری اصولوں کی تجدید کی اپیل  اور امریکیوں کے زیادہ سے زیادہ اتحاد کے مطالبے کی تکمیل کرتی ہے۔

بائیڈن نے کہا، [خدا کرے] “یہ ایک ایسی کہانی ہو جو ہماری راہنمائی کرے،  ایسی کہانی ہو جو ہمیں متاثر کرے، ایسی کہانی ہو جو آنے والے وقتوں کو بتائے کہ ہم نے تاریخ کی آواز پر لبیک کہا، ہم نے درست فیصلے کیے۔ ہماری نگرانی میں جمہوریت اور امید، سچ اور انصاف مرے نہیں بلکہ پھلے پھولے۔”

اس کے چند لمحوں بعد گورمین نے یہ سطور پڑھیں: “ہم ایک مقصد کے مطابق اپنے ملک  کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  ایک ایسا ملک تشکیل دینا جو تمام ثقافتوں، رنگوں، کرداروں، اور انسانی حالات سے ہم آہنگ ہو۔”

  صدارتی تقریبِ حلف برداری کی شعرا کی سوسائٹی

1961ء میں جب فراسٹ نے جان ایف کینیڈی کی تقریبِ حلف برداری میں نظم پڑھی تو انہیں دقت پیش آئی۔ انہوں نے یہ نظم نئی نئی لکھی تھی اور انہیں زبانی یاد نہ تھی۔ برفانی طوفان نے واشنگٹن کو برف کی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ فراسٹ  دھوپ میں پڑھ  رہے تھے۔ برف پر پڑنے والی دھوپ کی منعکس شعائیں اُن کی آنکھوں میں پڑ رہی تھیں اور تیز ہوا اُن کے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے ہوئے کاغذ کو اڑائے چلی جا رہی تھی۔ وہ رکے اور انہوں نے ماضی میں لکھی ہوئی اپنی “دا گفٹ آؤٹ رائٹ” نامی وہ نظم پڑھنا شروع کر دی جو انہیں زبانی یاد تھی۔ (ناقدین کے کہنے کے مطابق یہ نظم بہتر تھی۔)

بل کلنٹن کی تقریب حلف برداری میں پڑھنے سے کئی برس قبل ولیمز کی فراسٹ سے ملاقات ہوئی۔ ولیمز نے بتایا کہ فراسٹ نے ان سے کہا، “اگر آپ کو کبھی بھی تقریبِ حلف برداری میں نظم پڑھنے کو کہا جائے تو اسے [لکھے ہوئے کاغذ کو] ٹیپ سے کسی چیز پر چپکا لینا۔”

مگر لائبریری آف کانگریس کی طرف سے پہلی نوجوان شاعرہ کا اعزاز پانے والی، گورمین کو صرف جنوری کی روائتی سردی کا ہی سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے جس انداز سے اپنی نظم پڑھی وہ ایسا تھا جیسے انہوں نے محنت سے اس کی مشق  کر رکھی  ہو۔

وہ کلنٹن کی حلف برادری کی تقریب میں نظم پڑھنے والی، انجیلو سے متاثر ہیں۔ گورمین نے نظم پڑھتے ہوئے “آئی نئو وائی دا کیجڈ برڈ سنگ” (میں جانتی ہوں کہ پنجرے میں بند پرندہ کیوں گاتا ہے) کے عنوان سے  لکھی جانے والی انجیلو کی یاد داشتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے “پنجرے میں بند” نامی انگھوٹی پہن رکھی تھی۔ گورمین نے تیز رفتاری سے الفاظ کی علیحدہ علیحدہ ادائیگی اور ڈرامائی وقفوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی نظم پڑھی۔ پڑھنے کے اس انداز سے انہیں سامعین کی توجہ حاصل کرنے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ اینجلو سے ربط پیدا کرنے میں بھی مدد ملی۔ اینجلو کے بارے میں ایک مرتبہ شاعر ای ایتھلبرٹ ملر نے کہا تھا، “وہ ٹیلی فون کی ڈائریکٹری سے بھی پڑھکر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتی ہیں۔”

گورمین کی نظم نے بائیڈن کی تقریر کو ایک موزوں اختتام فراہم کیا۔ نئے صدر نے کہا کہ وہ ایک ایسے مستقل کی امید کرتے ہیں جس میں اُن کی حکومت کے دور کے بارے میں لوگ کہیں گے ” … امریکہ نے ملک کے اندر آزادی حاصل کی اور ایک بار پھر دنیا کے لیے روشنی کی ایک کرن بن کر ابھرا۔”

گورمین نے کہا، “اپنے مستقبل کو اولین ترجیح دینے کی خاطر، ہمیں اپنے اختلافات کو ہرصورت میں بالائے طاق کھنا چاہیے۔”