دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے، رافیل کیمپو۔ (© Jonathan Wiggs/The Boston Globe/Getty Images)
شاعر اور ڈاکٹر، رافیل کیمپو 2018 میں بوسٹن میں۔ (© Jonathan Wiggs/The Boston Globe/Getty Images)

ڈاکٹر ڈینیئل بیکر ہر روز صبح ساڑھے چار بجے اٹھتے ہیں کافی کا کپ بھرتے ہیں اور ایک گھنٹے کے لیے اپنے دفتر میں غائب ہو جاتے ہیں۔

مریضوں کے علاج سے اپنے دن کا آغاز کرنے سے قبل وہ وہاں پر بیٹھ کر نظمیں لکھتے ہیں۔ بیکر یونیورسٹی آف ورجینیا کے میڈیکل کالج میں ڈاکٹر ہیں اور وہ اُن امریکی ڈاکٹروں میں سے ہیں جو شاعری کی شفائی طاقت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

بیکر کا کہنا ہے، “شاعری کرنا مجھے لوگوں کے بارے میں اور اس سے متعلق کہ وہ میرے دفتر تک کیسے پہنچے انتہائی متجسس بناتا ہے۔ (یہ تجسس) اُن کی تشخیص اور دواؤں کی فہرست یا لیبارٹری کے ٹسٹوں کے بارے میں نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق (اُن کی) دائمی یا شدید بیماری کاٹنے کے تجربات سے ہوتا ہے۔”

سیاہ رنگ کا کتا صوفے پر بیٹھے ڈینیئل بیکر کو دیکھ رہا ہے۔ (© Madaline B. Harrison)
ڈاکٹر ڈینیئل بیکر اپنے “لیبریڈار ریٹریور” نسل کے “مونک” نامی کتے کے ساتھ؛ جس کا نام جاز پیانو نواز، تھیلونئس مونک کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ (© Madaline B. Harrison)

وہ کہتے ہیں کہ جب وہ مریضوں کے سرہانے کھڑے ہوتے ہیں تو شاعری انہیں ایک اچھا سامع بناتی ہے۔ “ہوم وزٹ” (گھر جانے) کے عنوان سے اپنی نظم میں انہوں نے جنوبی ورجینیا کی “برقی کرنٹ والے بالوں اور پتھریلی آنکھوں والی ایک بوڑھی عورت” مریضہ کے گھر پہنچنے کا منظر بیان کیا ہے۔ باورچی خانے میں اسے ملنے سے پہلے انہیں گھر کے سامنے والے برآمدے سے پچھواڑے تک گھومنے سے نسلوں کا تسلسل دکھائی دیا۔” وہ وہاں پر ایک نرس کے ہمراہ پہنچے تھے۔

شفایابی میں شاعری کا کردار

شفایابی میں طویل عرصے سے شاعری کا ایک کردار رہا ہے۔ ہارورڈ میڈیکل سکول میں ڈاکٹر اور انعام یافتہ شاعر ڈاکٹر رافیل کیمپو کا کہنا ہے، “ہم پوری تاریخ اور بہت ساری مختلف ثقافتوں میں معالجوں کو شاعری کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی بیماری سے (وسیع معنوں میں) نمٹنے میں مدد کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔”

اس ضمن میں بیکر عظیم امریکی شاعر والٹ وہٹ مین کا حوالہ دیتے ہیں جو خانہ جنگی کے دوران اکثر واشنگٹن کے اسپتالوں میں جا کر مریضوں کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ بیکر اپنی نظم “بیسٹ سٹوری ٹیلر ایوارڈ” (بہترین داستان گو کا ایوارڈ) میں کہتے ہیں کہ وہٹ مین نے کہا کہ ایک شاعر “مُردوں کو ان کے تابوتوں سے کھینچ کر باہر نکالتا ہے اور ان کو پاؤں پر کھڑا کر دیتا ہے۔” بیکر کو ادراک ہے کہ مصنف اور ڈاکٹر ہمیشہ ایک ہی طرح کی سوچ نہیں رکھتے۔

بیکر حیرانگی سے سوچتے ہیں کہ “شاعری کے کسی مصرعے کو ہر ایک کا ترجمان کیسے بنایا جائے۔”

19 ویں صدی میں برطانیہ کے جان کیٹس نے سرجن کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے آخر میں خود کو شاعری کے لیے وقف کیا اور انگریزی کے عظیم ترین شعرا میں شمار ہوئے۔ کیمپو کہتے ہیں کہ آج ‘جرنل آف دا میڈیکل ایسوسی ایشن’ (میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے) اور ‘ اینلز آف انٹرنل میڈیسن‘ (جسم کے اندرونی علاج کے شعبے کی تاریخ کے اوراق) سمیت، امریکی طبی جرائد میں ڈاکٹروں کی شاعری کے لیے علیحدہ شعبے موجود ہوتے ہیں۔

کیمپو میڈیکل ایسوسی اییشن کے جریدے کے شاعری کے شعبے کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “مجھے ہر ماہ 200 کے قریب نظمیں موصول ہوتی ہیں جبکہ میں ہفتے میں صرف ایک نظم شائع کر سکتا ہوں۔ (شاعری) میں بہت زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔”

کیمپو کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی نظموں کی تلاش رہتی ہے جو میری گردن کے پچھلے حصے میں رونگٹے کھڑے کر دیں اور میرے دل میں اتر جائیں۔”

لوگوں کے جذبات کو آواز کا روپ دینا

“شاعری کے اتنا طاقتور ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگوں کے (جذبات) کو آواز کی شکل دیتی ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں ہمیں دوسرے آدمی کی آواز سننے اُس کے تجربات میں شریک ہونے کے قابل بناتی ہے۔”

کیمپو مریضوں کی اپنی بیماری کے بارے میں روزمرہ ڈائری لکھنے کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنی تحریروں کے بارے میں مریضوں کو بتاتے ہیں۔

آئرین میتھیو نے اپنی ٹھوڑی کے نیچے مکے کی شکل میں اپنا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ (© Justin G. Reid)
ڈاکٹر آئرین میتھیو (© Justin G. Reid)

ڈاکٹر آئرین میتھیو یونیورسٹی آف ورجینیا میں بچوں کی ڈاکٹر ہیں۔ وہ اس وقت سے شاعری کر رہی ہیں جب وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ آج کل وہ یونیورسٹی کے فنون لطیفہ و بشریات اور اخلاقیات کے مرکز کے ذریعے شاعری کی شفائی طاقت کے بارے میں طلبا کو پڑہاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “حقیقی معنوں میں وہ (طلبا) اس کے بارے میں بہت پرجوش ہوتے ہیں۔ حتٰی کہ میڈیکل کے وہ طلبا جن کا شاعری کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہوتا انہیں بھی اس کی فوری طور پر سمجھ آنے لگتی ہے۔”

بہت سے ڈاکٹروں کے لیے شاعری ایک ایسی دوا ہے جس کی انہیں خود ضرورت ہوتی ہے۔ کیمپو ‘وٹ آئی وُڈ گیو’ (میں کیا دوں گا) کے عنوان سے اپنی نظم میں لکھتے ہیں کہ وہ اتنے سارے مصائب اور اموات کو دیکھنے پر اپنے شفا بخش علاج کی محدود طاقت اور اِن مصائب اور اموات سے اُنہیں پہنچنے والی تکلیف پر اپنی بے بسی کا جائزہ لیتے ہیں۔

میتھیو، ‘جرنل آف جنرل انٹرنل میڈیسن جریدے‘ (جسم کے اندرونی علاج کے عمومی شعبے) کے بشریاتی شعبے میں ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ اس جریدے میں نظمیں بھی شائع کی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم لوگ بہت مصروف ہوتے ہیں لہذا ہم بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک ایسے حسی تجربے کا ٹیکہ ہوتا ہے جو انہیں یہ بنیادی بات یاد دلاتا ہے کہ وہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں۔”

کیمپو اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، “ہمارے الفاظ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ وہ کام ہے جو دل سے کیا جاتا ہے۔”

فری لانس مصنفہ لنڈا وانگ نے یہ مضمون تحریر کیا۔

اس سے پہلے یہ آرٹیکل ایک مختلف شکل میں اس سے پہلے مارچ 17 2020 کو شائع ہو چکا ہے۔