شام میں کیمیائی حملوں کے ذمہ داروں کا یوم حساب: عنقریب

سو سال پہلے متحارب جنگی حریفوں نے ایک دوسرے کے خلاف مسٹرڈ اور دیگر زہریلی گیسیں استعمال کیں جن سے پہلی جنگ عظیم کے دوران یورپی جنگی میدانوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ ان گیسوں کے استعمال سے دنیا اس قدر متنفر ہوئی کہ 1925 میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال غیرقانونی قرار دینے کا جنیوا کنونشن منظور کیا گیا۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم تاریخ کی مہلک ترین جنگ تھی مگر اس دوران فریقین میں سے کسی نے بھی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے۔

تاہم 1980 کی دہائی میں ایسی گیسوں کا جنگی استعمال اُس وقت واپس لوٹ آیا جب عراق نے ایران کے خلاف جنگ میں اور کرد اقلیت کے خلاف یہ گیس استعمال کی۔ اب شام کی جنگ نے مہذب دنیا کو اس لعنت کا ایک بار پھر مقابلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

A line of uniformed soldiers, each with an arm on the next man's shoulder, some with eyes bandaged (© IWM)
اپریل 1918 میں فرانس کے شہر بیتھونے کے قریب لڑی جانے والی لڑائی میں جرمن فوج کے گیس کے استعمال سے اندھے ہو جانے والے برطانوی فوجیوں کی ایک قطار۔ (© IWM)

بشارالاسد کی حکومت پراکثریت کی جانب سے سارین گیس کے ایک حملے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اگست 2013 میں اپوزیشن کے زیرقبضہ دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں ہونے والے اس حملے میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد امریکہ اور روس کی معاونت سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت شام اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر رضامند ہوا۔

مگر اس سمجھوتے سے اس قسم کے حملے ختم نہیں ہوئے۔

اپریل 2017 میں سارین گیس کے حملے میں بیسیوں ہلاکتوں کے بعد امریکہ نے ایک شامی ہوائی اڈے کو میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ گزشتہ ماہ ادلیب صوبے کے شہر سراقب اور مشرقی غوطہ کے علاقے دوما میں کلورین گیس سے متعدد حملے کیے گئے ہیں۔

Children standing in a line holding photos (© Omar Haj Kadour/AFP/Getty Images)
جولائی 2017 میں خان شیخون، شام میں ایک مشتبہ کیمیائی حملے میں مارے جانے والے بچوں کے دوست اُن کی یاد میں احتراماً کھڑے ہیں۔ (© Omar Haj Kadour/AFP/Getty Images)

شامی حکومت کے اتحادی روس نے، شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذمہ دار فریقین کا تعین کرنے کے لیے عالمی معائنہ کاروں کے اختیار کی تجدید سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کو روکنے کے لیے تواتر سے ویٹو کا استعمال کیا ہے۔

جنوری میں مشرقی غوطہ میں کلورین گیس کے حملے کے بعد وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے کہا، “یہ حملے جس نے بھی کیے ہوں، مشرقی غوطہ کے متاثرین اور کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بننے والے بے شمار دیگر شامیوں کی ذمہ داری بھی بالاآخر اُس وقت سے روس پر عائد ہوتی ہے جب سے اس نے شام میں دخل اندازی شروع کر رکھی ہے۔”

مہذب اقوام کئی دہائیاں پہلے جنیوا میں اور پھر 1993 میں منظور کردہ کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی طرح، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کے استعمال کو ختم کرنے اور ان عالمی معاہدوں کا تمسخر اڑانے والوں سے جوابدہی کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں۔

20 سے زیادہ ممالک اور عالمی تنظیموں نے فرانس کے زیرقیادت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر عدم سزا کے خلاف عالمی شراکت‘ میں شمولیت اختیار کی ہے۔

وزیرخارجہ ٹِلرسن نے 23 جنوری کو پیرس میں اس شراکت کے آغاز پر اپنے خطاب میں کہا، “یہ اقدام کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والوں کو خبردار کرتا ہے۔ انہیں انسانیت کے خلاف جرائم پر یوم حساب کا سامنا کرنا ہو گا اورمتاثرین ایک دن انصاف ہوتا ہوا دیکھیں گے۔”

Rex Tillerson speaking (© Thibault Camus/AP Images)
وزیرخارجہ ٹِلرسن نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر عدم سزا کے خلاف عالمی شراکت کے آغاز پر “ذمہ دار اور مہذب اقوام کی برادری” سے مطالبہ کیا ہے کہ شام اور دنیا بھر میں “کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ختم کیا جائے۔” (© Thibault Camus/AP Images)

اس شراکت میں شامل ممالک نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ “کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، کسی کی بھی جانب سے اور کسی بھی صورتحال میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل قبول ہے” اور ایسا کرنے سے “عالمی معیارات اور اصولوں کی خلاف ورزی” ہوتی ہے۔

ان ممالک نے اطلاعات کے حصول اور تبادلے پر اتفاق کیا تاکہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور ایسے حملے کرنے والے افراد، گروہوں اور حکومتوں پر پابندی عائد کی جا سکے۔

ٹِلرسن نے کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنی ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ شامی عوام نے اسد اور اس کے والد حافظ الاسد کی آمریتوں میں قریباً 50 برس تک مصائب جھیلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2011 میں جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک 5 لاکھ سے زیادہ شامی ہلاک ہو چکے ہیں، 54 لاکھ مہاجر بن گئے ہیں جبکہ 61 لاکھ اندرون ملک بے گھر ہو گئے ہیں۔

مشرقی غوطہ میں ایک ہفتے تک شدید بمباری اور علاقے میں پھنسے شہریوں کی سینکڑوں اموات سے متعلق اطلاعات کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 24 فروری کو متفقہ طور پر ملک بھر میں 30 روزہ فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ شہر میں امداد پہنچائی جاسکے اور زخمیوں کا انخلا ممکن ہو سکے۔ داعش، نصرۃ فرنٹ یا القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں پر اس جنگ بندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔