شاہدینِ جیہووا: مذہبی آزادی کے علمبردار

روس نے شاہدینِ جیہووا (Jehovah’s Witnesses)  کی سرگرمیوں کو “انتہا پسند” قرار دیتے ہوئے انہیں مجرمانہ فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ ان کے اراکین کو قید میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ حالانکہ اس عقیدے کو ماننے والے طبقے کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کے اراکین امریکہ کی طرح ہرجگہ مذہبی آزادی کے حامی ہیں۔ اگرچہ ان کے مذہبی نظریات متنازعہ نوعیت کے تو ہو سکتے ہیں تاہم شاہدینِ جیہووا پرامن مذہبی کے پیروکار ہیں۔

شاہد کون ہے؟

انیسویں صدی کے امریکہ میں عیسائیوں کی تحریک احیاء سے شروع ہونے والے عقیدے کے پیروکار شاہدینِ جیہووا بائیبل کی ایک منفرد تشریح کو مانتے ہیں۔ وہ تثلیثِ مقدس کے انکاری ہیں اور خدا کے واحد ہونے کے اصول کے قائل ہیں اور  وہ اس خدا کو” جیہووا” کہتے ہیں۔

وہ یہ سکھاتے ہیں کہ حکومتوں اور منظم مذاہب سمیت انسان کے بنائے گئے تمام ادارے بنیادی طور پر بدعنوان ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں، وہ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتے، وہ فوج میں نہیں جاتے اور کسی قسم کا حلف بھی نہیں اٹھاتے۔ وہ انتقال خون پر بھی یقین نہیں رکھتے۔

یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے مذہبی اجتماعات میں دوسرے لوگ شریک نہ ہو سکتے ہوں مگر شاہدینِ جیہووا سے ہر ماہ اپنے عقیدے کے پرچار کے لیے لوگوں کے دوروازوں پر دستک دینے یا پمفلٹ بانٹنے میں کئی گھنٹے لگانے کی توقع کی جاتی ہے۔

Man bending over another man sitting in tub of water (© Angela Wylie/Fairfax Media/Getty Images)
آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ہونے والی شاہدینِ جیہووا کی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک آدمی بپتسمہ کے لیے اپنے جسم کو مکمل طور پر پانی میں ڈبونے کی تیاری کر رہا ہے۔ (© Angela Wylie/Fairfax Media/Getty Images)

شاہدینِ جیہووا کی سب سے بڑی تعداد امریکہ میں ہے۔ تاہم شاہدین میکسیکو، برازیل، نائجیریا اور جاپان میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ قدرتی آفات کے بعد امداد بھیج کر وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اور ایسے شاہدین کے لیے قانونی جدوجہد کرتے ہیں جن کے ساتھ محض ان کے عقیدے کی وجہ سے زیادتیاں کی جاتی ہیں۔

شاہدینِ جیہووا کے بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر کے ترجمان رابرٹ زِک کہتے ہیں، “مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والے ہم ایسے لوگ ہیں جو اچھے شہری بننا چاہتے ہیں، اور ہمارے مفادات، ہماری دلچسپیاں اور ہماری امیدیں بھی ویسی ہی ہیں جیسی عام لوگوں کی ہوتی ہیں۔”

مذہبی آزادی

شاہدینِ جیہووا نے20ویں صدی میں امریکی سپریم کورٹ میں بہت سے اہم مقدمات دائر کیے۔ یہ مقدمات امریکی آئین کی آزادی اظہارِ رائے، عقیدے اور جمع ہونے سے متعلق پہلی ترمیم کو اس کے تحفظ کی خاطر امتحان میں ڈالنے اور مضبوط بنانے کا سبب بنے۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں تاریخ اور آئینی قوانین کی پروفیسر سیلی گورڈن کے مطابق ان شاہدین کو “مشکل افراد” ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں لایا گیا۔ ان شاہدین کے عقائد غیر روایتی  ہیں اور یہ جب ان عقائد کو نہ ماننے والوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی یہ کوششیں دوسروں کے لیے اذیت اور ہتک کی وجہ بن سکتی ہیں۔

گورڈن کہتی ہیں کہ “کسی سے ناراض ہونے اور کسی کی مار پیٹ کرنے میں فرق ہے۔”

1940میں جیسی کینٹ ویل کے دروازہ کھٹکانے سے دو آدمی اس قدر خفا ہوئے کہ انہوں نے “اس کی پٹائی کرنے کی کوشش کی۔” مگر اس کی بجائے اُنہوں نے جیسی کو سکون میں خللل ڈالنے اور اجازت نامہ نہ ہونے کے الزام میں گرفتار کروا دیا۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جیسی کی گرفتاری پہلی آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔

کینٹ ویل بنام کنیٹیکٹ میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ حکومتیں مذہبی عقائد اور مذہبی عبادات طے نہیں کر سکتیں۔ اسی فیصلے میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ خواہ کسی شخص کے خیالات کتنے ہی ناگوار، ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں، اسے اُس وقت تک خاموش کرانا اس کے حق کی خلاف ورزی ہوگی جب تک کہ اس کی تقریر میں فتنہ و فساد اور تشدد  پر نہ بھڑکایا گیا ہو۔”

اس کے بعد مستقبل میں ہونے والے انسانی حقوق سے متعلق اہم مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت عدالت نے 1940ء میں کینٹ ویل کے مقدمے میں “غیر مقبول خیالات کے پرامن اظہار” کے حق میں طے کردہ اصولوں کا حوالہ دیا۔ افریقی نژاد امریکیوں کی نسلی بنیادوں پر علیحدگی کے خلاف پرامن احتجاج کے حق سے لے کر ویت نام جنگ کی خاموش مذمت جیسے جیہووا کے شاہدین کی طرف سے دائر کردہ مقدمات میں دیئے گئے فیصلوں سے لاکھوں امریکی  فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

گورڈن کہتی ہیں، “یہ لوگ تشدد پسند نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باتیں کہتے ہوں جو کہ نازیبا معلوم ہوتی ہوں، لیکن انہیں یہ سب کچھ کہنے کا حق ہے۔ وہ حکومتوں کی مخالفت کر سکتے ہیں اور انہیں چیلنج کر سکتے ہیں۔”

ضمیر کے قیدی

 ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی ملک میں شاہدینِ جیہووا پر ظلم و ستم یا ان کے تحفظ کو ایک ایسی آزمائش کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ معاشرے اور ان معاشروں پر حکمرانی کرنے والے ادارے کسی بھی دوسرے عقیدے کے حامل افراد کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھتے ہیں۔

ناروے میں قائم مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے “فورم 18” نامی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق روس میں 50 سے زائد شاہدینِ جیہووا مجرمانہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اپریل 2017 میں روس نے اس مذہب پر پابندی عائد کرنے کے بعد اسے ایک “انتہا پسند” تنظیم قرار دے دیا۔

People sitting at a table writing letters with paper and on computers (Courtesy of Jehovah’s Witnesses)
شاہدینِ جیہووا 21 مارچ 2017 کو دنیا بھر میں روسی حکومت کو یہ اپیل لکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے کہ ان کے مذہب پر پابندی نہ لگائی جائے۔ (Courtesy of Jehovah’s Witnesses)

انتہا پسندی کے قانون کی روسی تعریف مبہم ہے۔ روسی عدالتیں اس کی تشریح اس انداز سے کرتی ہیں جس کے مطابق جیہووا شاہدین کے ضمیر کے تحت جنگ پر اعتراض اور مذہبی وجوہات پر طبی علاج کے انکار جیسی چیزیں انتہا پسندی کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے دفتر سے تعلق رکھنے والی سٹیسی ڈیوس کہتی ہیں، “روس کی حکومت اپنے لوگوں پر ان کی اپنی آزادی اور اپنی مرضی سے عقائد رکھنے پر دائرہ تنگ کرتی جا رہی ہے۔”

روس کی 2016 کی “یارو وایا ترامیم” میں بائبل کی تبلیغ پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ بہت سے شاہدین کو محض اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر پر بائبل کی تعلیم کی میزبانی کرتے تھے۔

ڈیوس کہتی ہیں کہ شاہدینِ جیہووا روس میں  نشانہ بنائی جانے والی مذہبی اقلیتوں میں سے ایک اقلیت ہے۔ “میموریل” نامی انسانی حقوق کے ایک روسی گروپ کے مطابق تاحال یعنی جولائی 2018 تک روس میں ضمیر کے قیدیوں کی تعداد 108 ہے۔