مالدووا کی مرکسٹی نامی شراب کی کمپنی کے فارم پر انگور کے پھل کا موسم نہیں ہے مگر سلویا گینسیورچ بڑی محنت سے انگوروں کی بیلوں کی تراش خراش کر رہی ہیں۔

یوں تو گرمیاں بہت دور دکھائی دیتی ہیں مگر کام کرنے والوں کو علم ہے کہ پھل اتارنے کا وقت تیزی سے سر پر آن پہنچتا ہے۔ جلد ہی کارکنوں کی پوری ٹیم کو پکے ہوئے انگوروں کو توڑنے کے لیے اضافی کام کرنا پڑے گا۔
شراب کو مالدووا کے ورثے اور جدید معشیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ دو لاکھ افراد کی آمدنی کا ذریعہ ہے اور ملک کی مجموعی برآمدات کا پانچ فیصد ہے۔

تاہم مالدووا کی شراب کی صنعت کو ایک بہت بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ “فلیسنس ڈوری” نامی تیزی سے پھیلتی ہوئی پودوں کی ایک ناقابل علاج متعدی بیماری ہے۔ یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور انگور کی بیلوں کے پورے کے پورے کھیتوں کو تیزی سے ختم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں مالدووا کے بہت سے لوگ روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔
مرکسٹی کمپنی کے مالک آرکیڈی فوسینا کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ انگور کی بیلوں کی قطاروں میں جائیں اور اور ہر ایک پودے میں بیماری کی علامات دیکھیں۔ خوش قسمتی سے اس سال انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ اور مالدووا کی حکومت نے ایک آزمائشی پروگرام تیار کیا ہے جس کے تحت ملک کے انگور کے کھیتوں اور انگور کی بیلوں میں ہوائی ڈرونوں کے استعمال سے بیماریوں کے پھیلنے سے پہلے اُن کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
ڈرونوں میں ایسے خصوصی کیمرے لگے ہوئے ہیں جو ہر ایک پودے میں کسی بھی بیماری کے انفیکیشن کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں۔ یہ ٹکنالوجی بیماریوں کی تلاش میں انسانی ہاتھوں سے کام کرنے کے موجودہ نظام کی جگہ لے گی اور اس سے درستگی کی شرح میں 85 فیصد تک بہتری آ سکتی ہے۔

مرکسٹی گاؤں میں مرکسٹی کمپنی سب سے بڑی آجر ہے۔ اس پروگرام کے بعد فوسینا نے اپنے ملازموں کو بتایا کہ وہ ملازمین کی تعداد دو گنا کر نے جا رہے ہیں۔ اس سے معشیت کو تقویت ملے گی اور گاؤں میں ترقی، استحکام اور خود انحصاری کے دوروازے کھلیں گے۔
فوسینا اپنی بستی کے کام کی تلاش میں مجبوراً کسی دوسری جگہ منتقل ہونے والے لوگوں کی فکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، “ہر ایک چاہتا ہے کہ اسے گاؤں میں اپنے گھر کے قریب ملازمت ملے۔”

کھیتوں میں سارا دن محنت کرنے کے بعد سلویا گینسیورچ اور اُن کی سہیلی ویلنٹینا چند منٹ کے لیے کھیت کے قریب جلائی جانے والی آگ کے قریب بیٹھتی ہیں۔ اس طرح اُن کے کام کا دن اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ویلنٹینا ہنستی ہوئی کہتی ہیں، “ہم مالدووا کی شراب کا ایک گلاس بھی پیتی ہیں کیونکہ ہم کھیتوں میں انگورکی بیلوں پر کام کرتی ہیں اور شرم کی بات ہے اگر ہم تھوڑی سی اپنی خدمت بھی نہ کریں۔”
یہ مضمون تفصیلی شکل میں یو ایس ایڈ/ ایکسپوژر پر پر دستیاب ہے۔