شراکت داریاں امریکہ کے “سب سے بڑے تزویراتی اثاثے” ہیں: بلنکن

اینٹونی بلنکن تقریر کر رہے ہیں (© Cliff Owen/AP)
وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن 13 ستمبر کو واشنگٹن میں خطاب کر رہے ہیں جس کے دوران انہوں نے بتایا کہ عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ کس طرح اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ (© Cliff Owen/AP)

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ سب کے لیے زیادہ خوشحال اور محفوظ دنیا کے امریکی تصور میں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو مرکزی مقام حاصل ہے۔

وزیرخارجہ نے واشنگٹن میں 13 ستمبر کو خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک اہم تقریر میں کہا کہ “امریکہ کے اتحادوں اور شراکتوں کو بحال کرنا، انہیں نئے سرے سے مضبوط بنانا اور اِن کا تصورِ نو ہماری حکمت عملی کی بنیاد ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا تزویراتی اثاثہ ہیں۔”

بلنکن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غذائی عدم تحفظ اور بڑھتی ہوئی آمریت سمیت جن بحرانوں نے سرد جنگ کے بعد کے دور کو درہم برہم کر دیا ہے۔ انہیں کوئی ایک ملک اکیلے حل نہیں کر سکتا۔ اسی لیے امریکہ نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں:-

  • کروڑوں لوگوں کے غذائی تحفظ سے جڑے مسائل سے نمٹنے اور زراعت کو بہتر بنانے کے لیے 100 سے زائد ممالک کا اجلاس بلایا۔
  • روسی جارحیت سے یوکرین کی خودمختاری کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے یوکرین کی حمایت میں 50 ممالک کو اکٹھا کیا۔
  • ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے کے لیے جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر 600 ارب ڈالر کا بندوبست کیا۔
امدادی سامان وصول کرنے کے بعد یہ آدمی ایک عمارت سے باہر نکل رہا ہے (© Evgeniy Maloletka/AP)
امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں کی مدد کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال خوراک کا عالمی پروگرام ہے جس نے فروری میں یوکرین کے کاستیان تنیوکا شہرمیں لوگوں کی مدد کی جن میں تصویر میں دکھایا گیا یہ شخص بھی شامل تھا۔ (© Evgeniy Maloletka/AP)

وزیرخارجہ کی تقریر سے لیے گئے چند اقتباسات ذیل میں دیئے جا رہے ہیں:-

  • “ہم اپنی دوستیوں کو مضبوط بنانے، ان کا حلقہ وسیع کرنے اور انہیں نئے طریقوں سے ہم آہنگ کرنے کے مقصد اور تقاضے کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں تاکہ اس نئے دور کے تین فیصلہ کن امتحانوں میں پورا اتر سکیں۔”
  • “ہمارا مستقبل کا تصور ایک ایسی دنیا کا تصور ہے جو کھلی، آزاد، خوشحال اور محفوظ ہو۔ یہ صرف امریکہ کا تصور نہیں بلکہ ہر براعظم کے ہر ملک کے لوگوں کی مستقل خواہش ہے۔”
  • “ہم کسی بھی ملک کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ہمارا اہم امور پر اختلاف ہے بشرطیکہ وہ اپنے شہریوں کو فوائد پہنچانے، مشترکہ مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے اور بین الاقوامی اصولوں کا پاس کرنے کے لیے تیار ہوں۔”
  • “ہم اپنے پرانے اور نئے اتحادوں کو اُن بین الاقوامی اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں جن کا عالمگیر مسائل پر قابو پانے میں اہم کردار ہے۔”
  • ہمیں تاریخ کے پتوار کو تھامنا اور ایسی چیزوں کی رہنمائی میں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے جو غیریقینی دور میں بھی یقینی ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے اصولوں، اپنے شراکت داروں اور مستقبل کے حوالے سے اپنے تصور سے رہنمائی لینا ہے۔”

صدر بائیڈن 19 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اٹھترویں اجلاس سے خطاب کریں گے۔