جتنا لوگ اپنی حکومتوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں اتنا زیادہ وہ اس میں بہتری لانے کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ سادہ سا نظریہ اور یہ بنیادی حقیقت کہ لیڈروں کو اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہیے نہ کہ اپنی، شفاف حکومت کی مہم کی روح ہیں۔

صدر اوباما نے سات دیگر ممالک کے سربراہان کے ساتھ  مل کر2011ء میں  شفاف حکومت کے لیے شراکت داری (او جی پی) کا آغاز کیا۔ یہ حکومتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے درمیان ایک ایسی عالمی شراکت داری تھی جس کا مقصد شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا، شہریوں کی شمولیت میں اضافہ کرنا اور حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیوں کو استعمال میں لانا تھا۔

اس کے پانچ سال بعد، او جی پی کی 2016ء میں پیرس میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں ہزاروں حکومتی لیڈر اور سول سوسائٹی کے نمائندے اکٹھے ہوئے۔ یہ شراکت داری اب 70 ممالک سے زائد 2 ارب لوگوں کی نمائندگی کرنے والے اصلاح کاروں کے ایک پلیٹ فارم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

امریکی حکومت نے اپنی ویب سائٹ data.gov کے ذریعے، طالبعلموں، کاروباری نظامت کاروں اور عام لوگوں کو حکومتی ڈیٹا کے اور سائنسی تحقیق کے 200,000 سیٹ مہیا کیے ہیں۔ ملک بھر میں پولیس کے محکموں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اپنی روزمرہ کی کاروائیوں کو پولیس ڈیٹا انشی ایٹو نامی ایک پروگرام کے تحت شفاف سے شفاف تر بنا رہی ہے۔

اوباما نے 2016ء کی کانفرنس کو بتایا کہ ایسے میں جب وہ صدارتی عہدے سے سبکدوش ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، ان کا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اس بات پر یقین پکا ہو گیا ہے “کہ اہم ترین عہدہ صدر یا وزیراعظم ہونا نہیں ہوتا بلکہ ایک عام شہری ہونا ہوتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ وہ ” ایسے معاشروں کی تعمیر میں کام کرنے کی متمنی ہیں جو زیادہ انصاف پسند، زیادہ برابری والے اور زیادہ قابل احتساب ہوں۔”

نوٹ: ویڈیو انگریزی میں ہے۔