10 دسمبر کو میکسیکو سٹی میں ایک نئے تجارتی سمجھوتے پر دستخط کرنے کی تاریخی تقریب میں امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا نے ایک نئے تجارتی سمجھوتے کو حتمی شکل دی۔
صدر ٹرمپ نے 13 دسمبر کو کہا، “یہ سمجھوتہ امریکی محنت کشوں، کسانوں، بڑی زمینوں کے مالکان اور کاروباروں کے لیے کینیڈا اور میکسیکو میں منڈیاں کھول کر اورامریکی اشیاء، خدمات، اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے اچھے خاصے نئے مواقع پیدا کرے گا۔” گزشتہ برس صدر ٹرمپ نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور امریکی کانگریس عنقریب اس کی منظوری دینے جا رہی ہے۔
مخففاْ یو ایس ایم سی اے کہلانے والے امریکہ – میکسیکو – کینیڈا کے اس سمجھوتے کے ذریعے 25 سال پرانے شمالی امریکہ کی آزاد تجارت کے سمجھوتے (نیفٹا) میں جدید تقاضوں کی مناسبت سے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ میکسیکو نے اس سمجھوتے کی توثیق کر دی ہے جبکہ امریکہ اور کینیڈا اس کو منظور کرنے ہی والے ہیں۔
کاریں بنانے والوں پر شمالی امریکہ میں تیارکیے جانے والے پرزوں کے استعمال کی تعداد میں اضافے کی شرائط عائد کرنے سے، یو یس ایم سی اے شمالی امریکہ کی مصنوعات سازی میں اضافہ کرے گا۔

نیفٹا کے تحت دیگر ممالک کو میکسیکو کو گاڑیوں کے پرزے بھیجنے کی اجازت تھی۔ میکسیکو میں اِن پرزوں کو جوڑ کر تیار کی جانے والی گاڑیوں کو ڈیوٹی فری بیچنے کے لیے امریکہ بھیج دیا جاتا تھا۔ صدر ٹرمپ اس اجازت کے لیے نیفٹا کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ نیا سمجھوتہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ گاڑیوں کے تین چوتھائی پرزے شمالی امریکہ میں ہی تیار کیے جائیں۔
اس سمجھوتے میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ شمالی امریکہ میں تیار کی جانے والی گاڑیوں پر کام کرنے والے محنت کشوں کو کم از کم 16 ڈالر فی گھنٹہ اجرت ادا کی جائے۔
کینیڈا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے سے کینیڈا کے پیداوار کنندگان کی امریکی مارکیٹ تک رسائی بھی بڑھے گی اور وہ امریکہ کو چینی اور چینی سے بننے والی اشیاء کے ساتھ ساتھ خاص قسم کی ڈیری کی اشیاء بھی برآمد کر سکیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے یو ایس ایم سی اے کو “21ویں صدی کا ایک ایسا جدید تجارتی سمجھوتہ قرار دیا ہے” جس میں محنت اور ماحول کے اونچے معیارات مقرر کیے گئے ہیں۔
پومپیو نے 11 دسمبر کے ایک بیان میں کہا، “جب یو ایس ایم سی اے نافذ العمل ہو جائے گا تو یہ شمالی امریکہ کے روزگاروں کو تحفظ دے گا، معاشی خوشحالی کو بڑھائے گا، اور دنیا کے اقتصادی پاور ہاؤس کی حیثیت سے معیار طے کرتا چلا جائے گا۔”