شمالی کوریائی منحرف کے ریستوران میں امیدوں بھرے کھانوں سے تواضح

1997 میں شمالی کوریا سے فرار ہونے والی لی ای رین  ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ بھوک کیا چیز ہے۔ شمالی کوریا میں انہوں نے اور ان کے خاندان نے 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے اُس تباہ کن قحط کا سامنا کیا  جس کے دوران لاکھوں افراد فاقوں سے مر گئے۔

جب وہ  اور ان کا خاندان جنوبی کوریا پہنچنے کے قابل ہوئے تو لی کے ذہن سے خوراک کا موضوع نکل نہ پایا۔ انہوں نے خوراک اور غذائیت کی تعلیم حاصل کی اور اس شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والی پہلی شمالی کوریائی   منحرف خاتون بن گئیں۔ لی کہتی ہیں، “شمالی کوریا اب بھی میں کسی کے سماجی مرتبے سے قطع نظر خوراک تک رسائی کے معاملے میں صورت حال بہت مشکل ہے۔ ملک میں بہت سے لوگوں میں بقا کا احساس ابھی تک خطرے میں ہے۔”

Night street scene in Seoul, South Korea (Shutterstock)
لی کا ریستوران جنوبی کوریا کے شہر سیئول کے مرکزی علاقے نکوان ڈونگ میں واقع ہے۔ (Shutterstock)

جنوبی کوریا میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑنے والی شمالی کوریا کی اولین منحرف، لی نے سیئول میں ایک ریستوران کھولا ہے۔ نیونگرا باپسانگ نامی اس ریستوران میں شمالی کوریا کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں زیادہ سے زیادہ افہام کے لیے لوگوں کے درمیان کھانے پُل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لی کہتی ہیں، “میرے ریستوران میں کام کرنے والے سبھی ملازمین شمالی کوریا کے منحرفین ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ملازمت کا تجربہ ہو جائے۔ ان کے لیے ملازمتیں ڈھونڈنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔”

‘اتحاد میز سے شروع ہوتا ہے’

Cookies on a plate (Shutterstock)
یاکگوا بسکٹ۔ (Shutterstock)

لی اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے کھانے ایک دوسرے سے مختلف اور مخصوص نوعیت کے حامل ہیں۔ اس کے بجائے وہ سمجھتی ہیں کہ ان کھانوں میں علاقائی خصوصیات کی رنگارنگی پائی جاتی ہے۔

پیانگ یانگ کی ‘بک وہیٹ’ نامی گندمی سویاں اس وقت جنوبی کوریا پہنچیں جب کوریا کی جنگ کے دوران دونوں اطراف کے خاندان تقسیم ہو گئے تھے۔ یہ نفیس غذا شمالی کوریا کے دارالحکومت سے وابستہ ہے۔ لی شمالی کوریا کے ذائقوں پر مبنی یہ اور دوسرے بہت سے کھانے پیش کرتی ہیں۔ ان کھانوں میں وہ صرف فطری اجزا شامل کرتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ذائقہ تازہ اور ہلکا ہو۔

ان کی اس غذائی سفارتکاری نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اوقات یہاں آنے والے منحرفین ایسے کھانوں کے لیے کہتے ہیں جو مینو میں نہیں ہوتے۔ یہاں انہیں اپنے گھر کے ذائقے کی خواہش ہوتی ہے۔

یہاں دیوار پر لکھا ہے، “یکجائی میز سے شروع ہوتی ہے۔”

ہر سال  وہ جنوبی کوریائی اور امریکی فوجیوں کو دوستی کی ایک علامت کے طور پر شہد اور تلوں والے یکگوا نامی روائتی کوریائی بسکٹ پیش کرتی ہیں۔