
جی ہیون اے شمالی کوریا کو “ایک خوفناک قید خانہ” قرار دیتی ہیں۔ انہیں اس کی ہولناکیوں کا علم ہے کیونکہ وہ اس قید میں رہ چکی ہیں۔
جی ہیون اور اُن کے اہلخانہ شمالی کوریا سے جہاں معلومات اور آزادی محدود ہیں، 1998ء میں اُس وقت فرار ہوئے جب جنوبی کوریائی ریڈیو کی نشریات سے اُن پر یہ واضح ہوگیا کہ اُن کے پابندیوں میں جکڑے معاشرے سے باہر ایک بہتر زندگی موجود ہے۔ کسی قسم کے شک سے بچنے کی خاطر جی ین اور اُن کے اہلخانہ نے علیحدہ علیحدہ نکلنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے خاندان سے جدا، جی ین شمالی کوریا اور چین کی سرحد پر واقع دریائے ٹیومین عبور کرتے ہوئے پکڑی گئیں۔ اُنہیں شمالی کوریا واپس بھیج دیا گیا جہاں اُنہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ وہ چار مرتبہ فرار ہوئیں اور اُنہیں چاروں مرتبہ شمالی کوریا واپس بھجوا دیا گیا۔ اس دوران تشدد اور مار پیٹ سمیت اُنہیں خوفناک سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نکی ہیلی کہتی ہیں، “شمالی کوریا کی سرکاری سکیورٹی کے اہلکاروں کے ہاتھوں اٹھائے جانے والے [جی ین] کے دکھوں کی تفصیلات سننا مشکل ہے مگر انہیں سننا ضروری ہے۔” ہیلی نے 11 دسمبر 2017 کو شمالی کوریا میں انسانی حقوق کے سلسلے میں کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں کینیڈا، فرانس، جاپان، جنوبی کوریا اور برطانیہ کی مشترکہ میزبانی میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا۔
"North Korea is a terrifying prison." Hear now from Ji Hyeon-A on her experience defecting from North Korea: https://t.co/ng0m2S61es pic.twitter.com/A7VMbyBNRE
— U.S. State Dept | Democracy, Human Rights, & Labor (@StateDRL) December 11, 2017
شمالی کوریا میں قید کے دوران جی ہیون نے دیکھا کہ حاملہ عورتوں کو سخت قسم کی مشقت اُس وقت تک کرنے کا حکم ہوتا تھا جب تک اُن کا حمل ضائع نہ ہوجائے۔ “ہم سے شدید قسم کی مشقت کروائی جاتی تھی۔ کھانے پینے کی چیزوں کی اتنی کمی ہوتی تھی کہ ہم کچی مکڑیاں، پھینکے گئے بند گوبھی کے پتے، اور ایسے مینڈک اور چوہے کھاتے تھے جن کی کھالیں اتری ہوئی ہوتی تھی۔”
انہوں نے خوراک اور پانی کی کمی سے ہلاک ہونے والے افراد کی آنکھوں کے پپوٹے اپنے ہاتھوں سے بند کیے۔ اس دوران انہیں صرف ایک خیال نے زندہ رکھا۔ وہ تھا: “مجھے دنیا کو شمالی کوریا کے انسانی حقوق اور حقائق کے بارے میں بتانا ہے۔”
آخرکار جب وہ 2007ء میں جنوبی کوریا پہنچیں تو وہ ایک سرگرم رکن اور مصنفہ بن گئیں۔ ” آزادی کی خاطر ایک ہزار میل” کے نام سے لکھی گئی یادوں پر مبنی اُن کی کتاب جنوبی کوریا میں مقبول ترین کتاب بن گئی۔ ” خدا کے آنسوؤں” کے عنوان سے اس کتاب کو ایک غنائی ڈرامے کی شکل میں ڈھالا گیا۔
کئی دہائیوں پرمحیط دہشت کے بعد جی ہیون کو جنوبی کوریا میں امید نظر آئی۔ وہ اِس قابل ہوئیں کہ اپنی والدہ اور بیٹی کو بھی وہاں لا سکیں۔ اس کے علاہ، اُن کا چھوٹا بھائی اور بہن بھی خاندان سے آ ملے۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ” ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے دوبارہ کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے۔” اُنہیں اپنے والد کی یاد آتی ہے جنہیں 1998ء میں چین میں گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد اُن کی کوئی خبر نہیں۔
جی ہیون اور اُن کی کہانی غیرمعمولی نہیں ہے۔ لاکھوں شمالی کورین اُس آزادی کی آس لیے جی رہے ہیں جسے پانے کے لیے انہوں نے اتنی لمبی جدوجہد کی ہے۔
Absolutely. Heart. Breaking.
"At night, we heard pregnant mothers screaming and babies died without ever being able to see their mothers."#NorthKorea #HumanRights pic.twitter.com/BCsKU3wj17
— UK at the UN 🇬🇧🇺🇳 (@UKUN_NewYork) December 11, 2017
نکی نے کہا کہ شمالی کوریا کی حکومت کی انسانی حقوق کی زیادتیاں اُس وقت تک جاری رہیں گی جب تک منحرفین کی کہانیوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ہیلی کہتی ہیں، “یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں بات کرتے رہنا ہے۔”
جی ہیون اب لکھنے کے ساتھ ساتھ چونوم نیشنل یونیورسٹی میں انسانی حقوق اور سفارت کاری میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اُن کی کہانی کے بارے میں مزید جاننے کے لیے، اُن کا فیس بک پر براہِ راست لیا جانے والا انٹرویو دیکھیے۔ اس انٹرویو کی فلم بندی محکمہِ خارجہ میں کی گئی۔