
جب مقدس مجید 2003 میں شنجیانگ، چین سے پیرس تعلیم حاصل کرنے پہنچیں تو جن لوگوں کو اُن کی ویغور ثقافت یا روایات کے بارے میں علم تھا اُن کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ اسے تبدیل کیا جائے۔
تب سے مقدس مجید تعلیم، فلم سازی، اور فن سے متعلق اور پوڈ کاسٹر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو یورپ میں ویغور ثقافت کو متعارف کرانے اور دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ ویغور کہانیوں اور روایات شیئر کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
ویغور وسطی ایشیا کے ایک نسلی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی اپنی الگ ثقافت اور زبان ہے۔ اِن کی اکثریت چین [پی آر سی] کے شمال مغربی کونے میں واقع ایک خودمختار علاقے شنجیانگ میں رہتی ہے۔
تربیت کے حوالے سے مقدس ایک رقاصہ اور موسیقار ہیں۔ انہوں نے فرانس میں ہونے والے بین الاقوامی موسیقی کے میلوں میں ویغور موسیقاروں کو لانے کا کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیرس نانٹیرے یونیورسٹی میں نسلی موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جس کے دوران انہوں نے روایتی رقص اور موسیقی پیش کرنے کا مطالعہ کیا۔
اپنی تحقیق کے سلسلے میں وہ کئی باروسطی ایشیا آتی جاتی رہیں۔ مگر آخر میں انہوں نے فرانس میں مستقل رہائش اختیار کر لی جہاں اب وہ اپنے شوہر کے ہمراہ رہتی ہیں۔

گزشتہ برس پیرس میں امریکی سفارت خانے کے تعاون سے مقدس مجید نے انگریزی زبان کا WEghur Stories [ویغور کہانیاں] کے عنوان سے ایک پوڈ کاسٹ شروع کیا۔ اس پوڈ کاسٹ کے شریک میزبان امریکی مصنف اور داستان گو، جان بیئر ہیں۔ مقدس کو امید ہے کہ یہ پوڈکاسٹ لوگوں کو ویغوروں سے متعارف کرانے اور آرٹ کے ذریعے لوگوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرنے میں مدد کرے گا۔
ویغور زبان، ثقافت اور مذہب چین کی ہن اکثریت کی نسبت ازبکوں، قازقوں اور دیگر وسطی ایشیائی نسلی گروپوں کے ساتھ زیادہ ملتے جلتے ہیں۔
مقدس نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ دنیا کو ویغوروں کے ساتھ کی جانے والی چینی حکومت کی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ ویغوروں کی تاریخ اور آرٹ اور دیگر خدمات کا علم بھی ہونا چاہیے۔ پوڈکاسٹ کے اس سلسلے میں مقدس جو کہانیاں سناتی ہیں وہ عصرحاضر کی موسیقی سے لے کر ویغوروں کی صورت حال کے چرچے، فلم ، اور ویغور زبان کی تاریخ تک زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں۔
مقدس کہتی ہیں کہ ان کہانیوں کے ذریعے وہ یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ ویغور آرٹ اب بھی ارتقا کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، “ثقافت ایک متحرک چیز ہے۔ یہ ہمہ وقت ارتقا کے عمل سے گزرتی ہے [اور] لاتعداد مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے۔”

WEghur Stories پوڈ کاسٹ سامعین کی ایک بڑی تعداد کے لیے ویغور ثقافت کا کوئی نہ کوئی متحرک منظرنامہ لے کر آتے ہیں۔ اس طرح ویغوروں کے وطن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ چھپایا نہیں جا سکتا۔
2017 کے بعد سے پی آر سی نے 10 لاکھ سے زیادہ ویغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کے افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کیا ہے۔ ان کیمپوں سے بچ جانے والوں نے باہر آ کر بتایا ہے کہ کیمپوں کے اندر قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کی جبری نس بندی کی جاتی ہے، اور انہیں اپنا مذہب اور ثقافت ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
مقدس اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، “دس لاکھ لوگوں کو کیمپوں میں رکھنا، یہ ایک انتہائی ناقابل یقین بات ہے … لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ انہیں اس تعداد اور لوگوں کے مصائب کے درمیان تعلق سمجھ نہیں آ سکتا۔” انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ اس پوڈ کاسٹ کے ذریعے یہ دکھا سکیں گیں کہ یہ لوگ کتنی “حیرت انگیز کہانیاں” لیے ہوئے ہیں۔
مقدس کا کہنا ہے کہ میڈیا کی توجہ “تعلیمِ نو کے کیمپوں یا حراستی کیمپبوں، نسل کشی، … یا انسانیت کے خلاف جرائم” پر مرکوز ہے۔ وہ اس گفتگو کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ مگر وہ کہتی ہیں، “میں ایک ایسی جگہ بنانا چاہتی تھی جہاں ہم [اپنے] وطن سے باہر لوگوں کے حقیقی تجربات کے بارے میں بات کر سکیں۔”

وہ کہتی ہیں، “[اِن زیادتیوں کا] شکار ہونے کے بارے میں سوچ کر ہی حقیقی معنوں میں پریشانی ہونے لگتی ہے۔” وہ چاہتی ہیں کہ ان کے پوڈ کاسٹ لوگوں کا ویغوروں کے ساتھ ایک ایسا تعلق پیدا کریں “گویا کہ وہ ان کے دوست یا ان کے خاندان کے افراد ہیں۔”
بہت سے ویغور فنکار اپنے فن کے بارے میں عوام میں بات کرنے میں خوف محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے دوست اور خاندان اب بھی پی آر سی کے زیرتسلط رہ رہے ہیں، اور کچھ پی آر سی کی بیرونی ممالک تک پہنچ کے بارے میں بھی فکر مند ہوتے ہیں۔ مقدس جن کا اپنا خاندان آسٹریلیا میں رہتا ہے، اپنے مہمانوں کی حفاظت کے پیش نظر احتیاط سے کام لیتی ہیں۔ جو لوگ پوڈ کاسٹ پر نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ اپنے اصلی ناموں کی بجائے مختلف ناموں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ بیرونی ممالک میں رہنے والے ویغوروں میں عام ہے۔
اس کے باوجود مقدس کو امید ہے کہ ان کا کام ویغوروں کے بارے میں مکالمے کو وسعت دے رہا ہے اور یہ ظاہر کرنے میں مدد کر رہا ہے کہ انہیں اپنی زندگیوں پر اختیار حاصل ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ویغور “صرف دنیا کے مظلوم ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ دنیا کے تخلیق کار بھی [ہو سکتے] ہیں۔”
دنیا میں رہنے والے ویغوروں کے بارے میں جاننے اور پوڈ کاسٹ سننے کے لیے WEghur Stories وزٹ کریں۔