شنجیانگ میں جبری مشقت کے خاتمے کے لیے نیا امریکی قانون

سیمنٹ کی بڑی عمارتیں اور اِن کے سامنے سے گزرتے ہوئے دو افراد۔ (© Greg Baker/AFP/Getty Images)
شنجیانگ میں ویغور اور دیگر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو 2 جون 2019 کی اس تصویر میں دکھائی دینے والے آرٹکس، چین کے کیمپ جیسے کیمپوں میں زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ (© Greg Baker/AFP/Getty Images)

امریکہ نے شنجیانگ کے خود مختار ویغور علاقے میں تیار کی جانے والی تمام مصنوعات کی درآمد اس وقت تک ممنوع قرار دیدی ہے جب تک کہ درآمد کنندگان یہ  ثابت نہ کر دیں کہ درآمد کی جانے والی مصنوعات کی تیاری میں جبری مشقت سے کام نہیں لیا گیا۔

صدر بائیڈن نے 23 دسمبر 2021 کو ویغوروں سے کروائی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کے قانون پر دستخط کر کے شنجیانگ میں جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی مصنوعات پر پابندیوں کا دائرہ کار  وسیع کر دیا ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 23 دسمبر کو کہا، “ہم اُن کے لیے جو جبری مشقت سے چھٹکارے کی تمنا لیے ہوئے ہیں، ہر وہ کام کرنا جاری رکھیں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہم عوامی جمہوریہ چین کی حکومت سے فوری طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم ختم کرے۔”

گو کہ امریکہ نے پہلے سے ہی شنجیانگ میں تیار کی جانے والی مخصوص اشیاء کے سلسلے میں روکنے اور بعد میں چھوڑنے کے احکامات جاری کر رکھے تھے مگر نئے قانون کے تحت درآمد کنند گان کے لیے شنجیانگ سے آنے والی اشیاء کے بارے میں یہ ثابت کرنا لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ متعلقہ اشیاء جبری مشقت سے کام لے کر تیار نہیں کی گئیں۔

اس کے علاوہ جبری مشقت کے خاتمے کا قانون:-

  • جبری مشقت کے ذمہ دار پی آر سی کے حکام پر نئی پابندیاں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔
  • امریکہ -میکسیکو-کینیڈا کے سمجھوتے کو استعمال کرتے ہوئے جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی اشیاء کو رسدی سلسلے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے امریکی تعاون پر زور دیتا ہے۔

جبری مشقت

امریکی محکمہ خارجہ پی آر سی کی “اخلاقی اور مذہبی شناختوں کو مٹانے” کی مہم میں جبری مشقت کو ایک “مرکزی حربہ” سمجھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی آر سی نے 2017 کے بعد سے 10 لاکھ سے زیادہ ویغوروں اور دیگر نسلی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شنجیانگ کے کیمپوں میں قید کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو چین کے طول و عرض میں پھیلے مختلف مقامات یا فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

محکمہ خارجہ نے شنجیانگ میں جبری مشقت سے متعلق جولائی 2021 کے ایک حقائق نامے میں بتایا، “حکام قیدیوں کو کام پر مجبور کرنے کے لیے جسمانی تشدد، منشیات کے جبری استعمال، جسمانی اور جنسی استحصال اور تشدد کی دھمکیوں سے کا لیتے ہیں۔”

انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا

ویغوروں سے کروائی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کا قانون شنجیانگ میں پی آر سی کو جبری مشقت سے باز رکھنے اور انسانی حقوق کے فروغ کی امریکہ کی ماضی میں کی جانے والی کوششوں کو آگے بڑہاتا ہے جن کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات پہلے ہیں اٹھائے جا چکے ہیں:-

  • شنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار پی آر سی کے حکام پر پابندیاں لگائی گئیں۔

بائیڈن کے دستخطوں کے بعد کانگریس کی طرف سے اس قانون کی منظوری دیئے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے کہا، “عوامی جمہوریہ چین کو نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے اور شنجیانگ میں جبری مشقت سے نمٹنے کے لیے عملی کاروائی کی جا سکتی ہے اور [ایسا بہرصورت] کیا جانا چاہیے۔”