
امریکہ نے شنجیانگ کے خود مختار ویغور علاقے میں تیار کی جانے والی تمام مصنوعات کی درآمد اس وقت تک ممنوع قرار دیدی ہے جب تک کہ درآمد کنندگان یہ ثابت نہ کر دیں کہ درآمد کی جانے والی مصنوعات کی تیاری میں جبری مشقت سے کام نہیں لیا گیا۔
صدر بائیڈن نے 23 دسمبر 2021 کو ویغوروں سے کروائی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کے قانون پر دستخط کر کے شنجیانگ میں جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی مصنوعات پر پابندیوں کا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 23 دسمبر کو کہا، “ہم اُن کے لیے جو جبری مشقت سے چھٹکارے کی تمنا لیے ہوئے ہیں، ہر وہ کام کرنا جاری رکھیں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہم عوامی جمہوریہ چین کی حکومت سے فوری طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم ختم کرے۔”
گو کہ امریکہ نے پہلے سے ہی شنجیانگ میں تیار کی جانے والی مخصوص اشیاء کے سلسلے میں روکنے اور بعد میں چھوڑنے کے احکامات جاری کر رکھے تھے مگر نئے قانون کے تحت درآمد کنند گان کے لیے شنجیانگ سے آنے والی اشیاء کے بارے میں یہ ثابت کرنا لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ متعلقہ اشیاء جبری مشقت سے کام لے کر تیار نہیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ جبری مشقت کے خاتمے کا قانون:-
- جبری مشقت کے ذمہ دار پی آر سی کے حکام پر نئی پابندیاں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔
- امریکہ -میکسیکو-کینیڈا کے سمجھوتے کو استعمال کرتے ہوئے جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی اشیاء کو رسدی سلسلے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے امریکی تعاون پر زور دیتا ہے۔
Today, I signed the bipartisan Uyghur Forced Labor Prevention Act. The United States will continue to use every tool at our disposal to ensure supply chains are free from the use of forced labor — including from Xinjiang and other parts of China. pic.twitter.com/kd4fk2CvmJ
— President Biden (@POTUS) December 23, 2021
جبری مشقت
امریکی محکمہ خارجہ پی آر سی کی “اخلاقی اور مذہبی شناختوں کو مٹانے” کی مہم میں جبری مشقت کو ایک “مرکزی حربہ” سمجھتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی آر سی نے 2017 کے بعد سے 10 لاکھ سے زیادہ ویغوروں اور دیگر نسلی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شنجیانگ کے کیمپوں میں قید کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو چین کے طول و عرض میں پھیلے مختلف مقامات یا فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ نے شنجیانگ میں جبری مشقت سے متعلق جولائی 2021 کے ایک حقائق نامے میں بتایا، “حکام قیدیوں کو کام پر مجبور کرنے کے لیے جسمانی تشدد، منشیات کے جبری استعمال، جسمانی اور جنسی استحصال اور تشدد کی دھمکیوں سے کا لیتے ہیں۔”
انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا
ویغوروں سے کروائی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کا قانون شنجیانگ میں پی آر سی کو جبری مشقت سے باز رکھنے اور انسانی حقوق کے فروغ کی امریکہ کی ماضی میں کی جانے والی کوششوں کو آگے بڑہاتا ہے جن کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات پہلے ہیں اٹھائے جا چکے ہیں:-
- شنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار پی آر سی کے حکام پر پابندیاں لگائی گئیں۔
- اجتماعی نگرانی، جبری مشقت اور ظلم و جبر میں مدد کرنے والی پی آر سی کی کمپنیوں کو امریکہ سے فنڈ جمع کرنے یا ٹکنالوجی حاصل کرنے سے روکا گیا۔
- کمپنیوں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے رسدی سلسلوں کی مکمل چھان پھٹک کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ کہیں جبری مشقت میں معاونت تو نہیں کر رہیں۔ امریکی حکومت نے کمپنیوں کی جبری مشقت سے بچنے میں مدد کرنے کی خاطر بزنس ایڈوائزریز [کاروباری مشورے] اور ایسی اشیاء کی فہرستیں بھی جاری کیں جو بچوں سے مشقت کروا کر یا جبری مشقت سے کام لے کر تیار کی جاتی ہیں۔
بائیڈن کے دستخطوں کے بعد کانگریس کی طرف سے اس قانون کی منظوری دیئے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے کہا، “عوامی جمہوریہ چین کو نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے اور شنجیانگ میں جبری مشقت سے نمٹنے کے لیے عملی کاروائی کی جا سکتی ہے اور [ایسا بہرصورت] کیا جانا چاہیے۔”