(© Dake Kang/AP Images)
چین میں پیدا ہونے اور ترکِ وطن کر کے قازقستان جا بسنے والا یہ آدمی 2018ء میں اپنے کنبے کی تصویر لیے کھڑا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اُس کے والد کو چین کے شنجیانگ کے علاقے میں واقع ایک فیکٹری میں زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ (© Dake Kang/AP Images)

چینی حکومت ویغوروں اور دیگر نسلی اقلیتوں کو بہت تھوڑی تنخواہوں یا بالکل تنخواہوں کے بغیر شنجیانگ صوبے میں واقع فیکٹریوں میں ظالمانہ حالات میں کام کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

امریکہ کے سفیر برائے مذہبی آزادی، سیم براؤں بیک نے جون میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ زیر حراست ویغوروں پر” جسمانی اور نفسیاتی تشدد کیا جاتا ہے، شدید سیاسی نظریات مسلط کیے جاتے ہیں، اور اُن سے جبری مشقت  کروائی جاتی ہے۔”

Line of people and car behind tall wire fence (© Ng Han Guan/AP Images)
2018ء میں چین کے شنجیانگ کے علاقے میں واقع آرٹکس شہر کے دستکاری کی مہارتوں کے تعلیمی اور تربیتی خدمات کے مرکز کے اندر رہائشی افراد لائن میں کھڑے ہیں۔ (© Ng Han Guan/AP Images)

یہ جبری مشقت شنجیانگ صوبے میں چینی حکومت کے اُس جاری جبر کا ایک حصہ ہے جو ویغوروں، نسلی قازقوں اور دیگر مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے۔

ویغور اور قازق ترک النسل گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور چین کی نسلی ہن اکثریت سے ثقافتی، لسانی اور مذہبی اعتبار سے یکسر مختلف ہیں۔

2017 سے لے کر آج تک چینی حکام اِن نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دس لاکھ سے زائد افراد کو شنجیانگ کے طول و عرض میں پھیلے حراستی کیمپوں میں قید کر چکے ہیں۔ چینی حکومت کے یہ اقدامات اِن نسلی اقلیتوں کی ثقافت اور مذہب کو مٹانے کی مہم کا ایک حصہ ہیں۔

آبادی کو کنٹرول کرنا

اطلاعات کے مطابق،چینی حکام ویغوروں کو جن فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اُن میں سے کچھ  شنجیانگ صوبے کے حراستی کیمپوں کے اندر واقع ہیں اور بعض اِن سے ملحق ہیں۔

Long rows of people wearing matching clothes, seated and working (© CCTV/AP Video)
تاریخ کے بغیر وڈیو کی اِس فٹیج میں ہوتان کے دستکاری کے تعلیمی اور تربیتی مرکز میں، زیرتربیت مسلمان مرد اور عورتیں کام کر رہی ہیں۔ (© CCTV/AP Video)

محکمہ خارجہ کے انسانوں کے بیوپار کی رپورٹ کے دفتر کے مطابق، “حکومت اِن میں سے بہت سے افراد سے  یا تو فیکٹریوں میں یا  اِن فیکٹریوں سے ملحقہ جگہوں پر جبری مشقت کرواتی ہے۔ اِن فیکٹریوں میں ملبوسات، قالینیں، صفائی کا سامان، اور دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں جنہیں ملک کے اندر یا ممکنہ طور پر بین الاقوامی سطح پر فروخت کیا جاتا ہے۔”

چین کہتا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کو کیمپوں میں دستکاری کی تربیت دینے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ بہت سے قیدی پہلے سے ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر تو تدریس جیسے پیشہ ورانہ عہدوں پر فائز ہوتے  ہیں اور بعض کامیابی سے کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں۔

فیکٹریوں کے اندر  حالات حراستی کیمپوں سے بہت بہتر نہیں ہیں۔ حکومت زیر حراست افراد کو چینی زبان سیکھنے اور سیاسی نظریات کی تعلیم پر مجبور کرتی ہے۔

آزاد محقق ایڈریان زینز ایک حالیہ رپورٹ میں کہتے ہیں کہ اس سے بھی بڑھکر، “حکومت پولیس کے دستے اور خصوصی معلم فراہم کرتی ہے تاکہ فیکٹریوں کو ‘نیم فوجی طرز کی انتظامیہ’ کے انداز سے  چلایا جاسکے۔”

شنجیانگ کی صوبائی حکومت، خطے میں تجارت کو پرکشش بنانے کے لیے سستی افرادی قوت کی دستیابی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہے۔

زینز کہتے ہیں، “حکومتی دستاویزات میں ڈھٹائی سے اس حقیقت کے متعلق شیخیاں بھگاری جاتی ہیں کہ حراستی کیمپوں کے ایک وسیع نیٹ ورک میں دستیاب محنت کشوں کی رسد بہت سی چینی کمپنیوں کو شنجیانگ میں اپنے کاروبار شروع کرنے کی طرف راغب کر رہی ہے۔”