Two people leaning on railing on ship (U.S. Coast Guard/Melissa E. McKenzie)
مچھلیاں پکڑنے والے ایک جہاز پر سوار امریکی کوسٹ گارڈ کا یہ جوان اس ٹیم کا حصہ تھا جس نے جزائر مارشل کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر 2016 میں سمندر میں گشت کی تھی۔ (U.S. Coast Guard/Melissa E. McKenzie)

جزائر مارشل کی جمہوریہ کے سر پر ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ اسے اپنے ‘مخصوص معاشی علاقے‘ میں 21 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے سمندر پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ یہ وہ سمندری حدود ہیں جن میں اسے ماہی گیری، زیرآب کھدائی اور دیگر اقتصادی سرگرمیوں کے حاکمانہ حقوق حاصل ہیں۔ سلسلہ وار جزائر پر مشتمل اس ملک کا زمینی رقبہ 181 مربع کلومیٹر ہے۔

‘شپ رائیڈر’ نامی عالمی سمجھوتوں کے ذریعے امریکی بحری جہاز جزائر مارشل کو ان پانیوں کی نگرانی میں مدد کرتے ہیں۔ 2013ء میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اس جزیرے کے قانون کا نفاذ کرنے والے افسر’شپ رائیڈر’ کی حیثیت سے امریکی کوسٹ گارڈ اور امریکی بحریہ کے جہازوں پر جا سکتے ہیں۔ وہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث جہازوں کو روکتے ہیں جن میں شارک کے پروں کو کاٹنا اور منشیات و اسلحے کی سمگلنگ شامل ہے۔

بحرالکاہل میں امریکہ کے جزائر کک، کیریباٹی، وفاقی ریاستہائے میکرونیشیا، جزائرمارشل، ٹونگا، سمووا، پالاؤ، نارو اور ٹووالو کے ساتھ شپ رائیڈر معاہدے موجود ہیں۔

People standing on old fishing boat (U.S. Coast Guard/USCGC Kukui)
امریکی کوسٹ گارڈ کے ایک جوان اور جزائر مارشل کے ‘شِپ رائیڈروں’ پر مشتمل غیرقانونی شکار کرنے والے جہازوں کو پکڑنے والی ٹیم کے ارکان 2015ء میں بحر الکاہل میں مچھلیاں پکڑنے والی ایک کشتی پر کھڑے ہیں۔ (U.S. Coast Guard/USCGC Kukui)

2011ء میں جزائر مارشل نے دنیا میں شارک مچھلیوں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ قائم کی تھی۔ اس اقدام سے سمندر کے ایک وسیع حصے میں شارک کا تجارتی پیمانے پر شکار ممنوع قرار پایا۔ اسی لیے جب امریکی کوسٹ گارڈ کے ایک جہاز پر موجود جزائر مارشل کے شپ رائیڈروں کا سامنا شارک کا غیرقانونی شکار کرنے والے ایک جہاز سے ہوا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور ایک لاکھ 25 ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔

جزائر مارشل کے ایک سابق سیاسی رہنما ٹونی ڈیبرم نے ‘پیو خیراتی ٹرسٹ’ کو ایک انٹرویو میں بتایا، ”ہم نے نفاذِ قانون کو آمدنی کا ذریعہ بنایا ہے اور ان لوگوں کی سوچ تبدیل کی ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ قانون کا نفاذ ناممکن ہے۔”

شپ رائیڈر سمجھوتوں سے فرق پڑتا ہے

2016 ء میں لگائے جانے والے تخمینوں کے مطابق ٹیونا مچھلی کے غیرقانونی، بلا اطلاع اور بے ضابطہ شکار سے بحرالکاہل کے ممالک کو ہرسال 60 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اس قسم کی غیرقانونی ماہی گیری سے دنیا بھر میں 23.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر، پکڑی جانے والی ہر پانچ مچھلیوں میں سے ایک مچھلی کا شکارغیرقانونی طور پر کیا جاتا ہے۔

اس سے لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عالمی بنک کے اندازے کے مطابق دنیا کی 10 سے 12 فیصد آبادی کے روزگار کا انحصار ماہی گیری پر ہے۔

2016 میں بحرالکاہل میں نفاذ قانون سے متعلق کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے امریکی کوسٹ گارڈ کے رچرڈ ہوز  نے ‘ سی پاور‘ نامی رسالےکو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا، ”ایسے دوطرفہ شپ رائیڈر معاہدوں سے ناصرف ہماری اپنی سمندری حدود (مخصوص معاشی علاقے) کا تحفظ ہوتا ہے بلکہ جن ممالک کے ساتھ معاہدے کیے جاتے ہیں، ان کی صلاحیت اور اہلیت بڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے۔”