ایک آدمی انٹینے ٹسٹ کرنے والے کمرے میں کھڑا ہے۔ (© Jason Lee/Reuters)
ہواوے کا ایک انجنیئر فائیو جی انٹینے کے نیچے کھڑا ہے۔ اس طرح کے انٹینے صارفین اور گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ڈیٹا کی ایک کثیر تعداد لے کر جائیں گے۔ (© Jason Lee/Reuters)

ایک ایسے وقت میں جب دنیا فائیو جی نیٹ ورکوں کی تیاری میں لگی ہوئی ہے، امریکی حکام اس خطرے کی جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ نئی ٹکنالوجی آمرانہ حکومتوں کو اپنے شہریوں کو مزید دبانے اور کنٹرول کرنے میں مدد کرے گی۔

امریکہ کے سائبر سے متعلق سفارت کار، رابرٹ سٹریئر کا کہنا ہے کہ فائیو جی نیٹ ورکوں کے تیز تر کنکشن اور زیادہ بڑی بینڈ وِڈتھ کی موجودگی میں “اگلے چند برسوں میں دسیوں ارب نئے آلات انٹرنیٹ سے جڑجائیں گے۔”

فائیو جی ٹکنالوجی زیادہ تر لوگوں کے زندگی کے معیار میں بہتری لے کر آئے گی۔ مگر کچھ کے نزدیک، اسے اُن کی آزادیوں پر پابندیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین (پر آر سی) میں قائم کمپنیاں پہلے سے ہی نگرانی کرنے والی ایسی ٹکنالوجیاں تیار کر رہی ہیں اور انہیں استعمال بھی کر رہی ہیں۔ انہیں ملک کے اندر اور بیرونِ ملک لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بیجنگ کا ڈیٹا کا قید خانہ

چینی حکومت ٹکنالوجیوں کو انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ اتنے بڑے پیمانے پرڈیٹا اکٹھا کرتی ہے اور اس کا غلط استعمال کرتی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ اس ڈیٹا سے حاصل ہونے والی معلومات کو بدعنوانی اور جبر کو پروان چڑہانے، وسیع پیمانے کی من مانی جاسوسی کرنے اور اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

سٹریئر کا کہنا ہے کہ پی آر سی آج کل “ٹکنالوجی کو گہری اور من مانی ہائی ٹیک جاسوسی اور دوسروں کی مرضی کے بغیر ذاتی ڈیٹا جمع کرنے کے لیے” استعمال کر رہا ہے۔

“2018 میں نیٹ پر آزادی” کے عنوان سے جاری کی جانے والی فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کہتی ہے کہ 65 ممالک میں سے 18 ممالک ییٹو، ہک وژن اور کلاؤڈ واک جیسی چینی کمپنیوں سے (ٹکنالوجی کے) نظام خرید چکے ہیں۔ یہ کمپنیاں ” ‘عوامی امن’ کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرنے کے اہل نظام تیار کرنے کی خاطر مصنوعی ذہانت اور چہروں کی شناخت میں ہونے والی پیش رفتوں” کو آپس میں جوڑتی ہیں۔”

شہریوں کی قریبی نگرانی اور کنٹرول کو، آنے والی فائیو جی کی ٹکنالوجی مزید آسان بنا دے گی۔

بیجنگ کی برآمد: جبر

سٹریئر کہتے ہیں، “چینی ٹکنالوجی کی کمپنیاں پہلے سے ہی دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی اور دیگر آزدیوں کو دبانے کے لیے — اور اکثر چینی حکومت کی ملی بھگت سے — کام کر رہی ہیں۔ (انٹر نیٹ سے جڑی) اِن تمام خدمات کے فائیو جی نیٹ ورکوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے، بہت کچھ اِس بات پر داؤ پر لگا ہوا ہے کہ اِن انتہائی اہم نیٹ ورکوں کو محفوظ بنایا جائے۔”

فائیو جی نیٹ ورکوں کو اپنانے کے ساتھ، اس نگرانی کا ایک بہت بڑا حصہ خودکار طریقے سے کام کرے گا اور پی آر سی، حکمرانی کے اپنے جابرانہ ماڈل کو برآمد کر سکے گا۔ فائیو جی کے بارے میں امریکہ کے خدشات کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔

اس سال کے اوائل میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ‘بیلٹ اینڈ روڈ تجارتی سمجھوتے’ کے ایک حصے کے طور زمبابوے، “چہروں کی شناخت کرنے والا چینی نظام درآمد کرے گا اور اس کو ایسے استعمال کیے جانے کے امکانات ہیں جس سے آمریت کی لاگت میں کمی آئے گی۔”

سٹریئر کہتے ہیں، “اگر چینی کمپنیاں زیریں ڈھانچہ تعمیر کریں گی تو وہ دنیا بھر میں اِن سرگرمیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی اور زیادہ بہتر حالت میں آ جائیں گی۔”