اُن دنوں افریقی نژاد امریکیوں کو مساوی سلوک سے محروم رکھنے کی خاطر قانونی اور ثقافتی رکاوٹیں موجود تھیں۔ اِن رکاوٹوں کو دور کرنے والے شہری حقوق کی تحریک کے ہیرو مرد اور عورتیں، اتنے ہی متنوع تھے جتنے کہ وہ مظلوم لوگ جن کی خاطر انہوں نے کام کیا۔ ذیل میں ان میں سے کچھ کی کہانیاں اور اُن گھروں کی تصویریں دی جا رہی ہیں جہاں وہ رہے اور انہوں نے کام کیا۔
ڈیزی بیٹس

ریاست ارکنسا کے شہر لٹل راک میں شہری حقوق کی تحریک کے دور کی ایک ابتدائی فتح، سفید فاموں کے لیے مخصوص سنٹرل ہائی سکول میں نسلی تفریق کا خاتمہ کرکے حاصل کی گئی۔ اس فتح کے پیچھے کار فرما اصل قوت ڈیزی بیٹس تھیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے 1954ء میں نسلی تفریق کے قوانین کو ختم کر دیا تھا، تاہم ارکنسا کے گورنر نے اس عدالتی حکم کی مزاحمت کی۔ گورنر نے اُن 9 افریقی نژاد امریکی طلبا کو سکول میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے جنہیں سکول میں داخلہ دیا جا چکا تھا، سکول کے باہر نیشنل گارڈ کو تعینات کر دیا۔ رنگدار لوگوں کی ترقی کی قومی ایسوسی ایشن کی ارکنسا شاخ کی صدر، ڈیزی بیٹس نے مقامی مزاحمت کے خلاف وفاقی قانون کو نافذ العمل کرانے کے لیے کام کیا۔ 24 ستمبر 1957 کو 9 طلبا اور ان کے والدین وفاقی فوجیوں کے ایک دستے کی حفاظت میں سکول جانے کے لیے بیٹس کے گھر میں جمع ہوئے۔
بعد میں بیٹس واحد ایسی خاتون بنیں جس نے 1963ء کے واشنگٹن کے مارچ کے مجمعے سے خطاب کیا۔
فریڈرک ڈگلس

فریڈرک ڈگلس غلامی میں پیدا ہوئے۔ وہ غلامی سے نکل کر ایک سرکردہ مصلح اور معاشرتی اور غلامی کے خاتمے کے نصب العین کے ایک پر زوردار مقرر بنے۔ 1845ء میں ان کی سوانح عمری، ایک امریکی غلام، فریڈرک ڈگلس کی زندگی کا بیانیہ، سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بنی۔ ڈگلس نے غلامی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے کام کے بارے میں کہا تھا، “ہوسکتا ہے کہ یہ ایک اخلاقی جدوجہد ہو، یا ہوسکتا ہے کہ یہ ایک جسمانی جدوجہد ہو، یا ہو سکتا ہے کہ یہ اخلاقی اور جسمانی دونوں طرح کی جدوجہد ہو، لیکن اسے لازماً ایک جدوجہد ہی ہونا چاہیے۔ طاقت مطالبے کے بغیر کوئی چیز نہیں دیتی۔”
ڈگلس جب 1877ء میں واشنگٹن کے اینا کوسٹیا نامی نواحی علاقے میں منتقل ہوئے تو اس وقت تک وہ بین الاقوامی سطح پر ایک معروف شخصیت بن چکے تھے۔ ان کا وکٹورین طرزِ تعمیر پر بنا ہوا گھر اب ایک قومی تاریخی مقام ہے۔
لینگسٹن ہیوز

احیائے ہارلِم کے طور پر معروف ہونے والے 1920 کے عشرے کے دوران، لینگسٹن ہیوز نے ادب تخلیق کرنے کے لیے اپنی زبان کو جاز کے سُروں میں ڈھال کر اپنی شاعری میں افریقی نژاد امریکیوں کی زندگی کی مایوسیوں اور مسرتوں، دونوں کو سمو دیا ہے۔ ہیوز نے اپنی پہلی کتاب شائع کرنے سے پہلے، بہت سے ملکوں کا سفر کیا اور ایک ملاح اور باورچی سمیت دوسرے کئی کاموں کے علاوہ، پیرس کے ایک نائٹ کلب میں دربان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
ہیوز نے اپنی نظموں میں دسیوں لاکھوں سیاہ فام امریکیوں کے تجربے کو آواز بخشی۔ وہ ایسی ہی ایک نظم “جمہوریت” میں لکھتے ہیں:
میں لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سن کر تھک جاتا ہوں،
جو ہو رہا ہے، اسے ہونے دو۔
کل ایک دوسرا دن ہوگا۔
مجھے اس وقت آزادی نہیں چاہیے جب میں مرجاؤں گا۔
میں آنے والے کل کی روٹی پر زندہ نہیں رہ سکتا۔
بعض اوقات ہارلِم کا ملک الشعرا کہلانے والے، ہیوز نے اپنی زندگی کے آخری 20 سال ایسٹ، 127یں سٹریٹ کے علاقے میں واقع اپنے گھر میں گزارے۔
جیمز بالڈ وِن
جیمز بالڈ وِن نے کہا، “اس ملک میں سیاہ فام لوگوں کا مستقبل بعینہی اتنا ہی روشن یا تاریک ہے جتنا کہ اس ملک کا مستقبل ہے۔” مضمون نگار اور ناول نگار بالڈ وِن، افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ امریکہ کے سلوک کے ایک بیباک نقاد تھے۔ اپنی انتہائی مقبول کتابوں کے ذریعے اور ایک عوامی شخصیت کے ناطے، بالڈ وِن نے امریکہ کی خامیوں کو انتہائی بھرپور انداز سے بیان کیا۔
بالڈ وِن اگرچہ ہمیشہ امریکی ثقافت سے وابستہ رہے، مگر آخر میں وہ جنوبی فرانس میں سینٹ پال ڈی وینس میں جا بسے۔ جہاں انہوں نے اپنا تصنیفی کام جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مائیلز ڈیوس اور ایلا فٹز جیرالڈ جیسے مہمانوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایک مرتبہ بالڈ وِن نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا، “میں جب سے سمندر کے اِس پار آ بسا ہوں تب سے میں واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔”

شہری حقوق کی تحریک کے ان علمبرداروں کی اموات کو ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی لوگ ان کے گھروں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اگرچہ یہ بہت پُرشکوہ یا مہنگے گھر نہیں ہیں تاہم یہ اُن امریکیوں کی یاد دلاتے ہیں جن کی جدوجہد نے ہمارے ملک کو تمام مردوں اور عورتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔