شیف سفارت کاروں کا ثقافتوں کو باہم جوڑنے کے لیے کھانوں کا استعمال

علیحدہ علیحدہ پیالوں میں رکھے تین کھانے (Courtesy of Jerome Grant)
جیروم گرانٹ کے محل ایکسپریس کے چاولوں بھرے پیالے اُن کے افریقی اور فلپائنی النسل ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اِن کھانوں میں سور کے گوشت سے بنا ٹوسینو (سامنے)، لیموں والی سموک چکن (درمیان میں) اور پرانا شویو بیف (پیچھے) بھی شامل ہیں۔ (Courtesy of Jerome Grant)

طباخی سفارت کاری لوٹ آئی ہے۔

جیمز بیئرڈ فاؤنڈیشن کے تعاون سے  امریکی محکمہ خارجہ نے 9 فروری کو سفارتی طباخی کی شراکت دوبارہ شروع کر دی۔ یہ شراکت مشہور امریکی شیفوں اور 83 پیشہ ور طباخوں کا نیٹ ورک ہے۔

امریکہ کی طباخ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بیرونی ممالک میں سرکاری عشائیوں اور ظہرانوں جیسی سفارتی تقریبات کے لیے مینو  تیار کریں گے اور خاص قسم کے کھانے پکائیں گے جس کے ذریعے وہ مختلف ثقافتوں کے باہمی تبادلوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

یہ شراکت ایک مختلف شکل میں 2012 سے 2016 تک جاری رہی۔ اب بحال ہونے والی یہ شراکت کھانوں، مہمان نوازی اور کھانے پکانے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے محکمہ خارجہ کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ اس کا مقصد عالمی لیڈروں کے ساتھ میل ملاپ پیدا کرنا، مختلف ثقافتوں کے مابین مکالمے کو فروغ دینا اور دوطرفہ تعلقات کو تقویت دینا ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے طباخی سفارت کاروں اور 200 سے زائد مہمانوں کی ایک تقریب میں کہا کہ یہ شراکت “غیرملکی مہمانوں اور اہم شخصیات کو امریکی کھانوں کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کرے گی اور [انہیں] حقیقی معنوں میں  ہماری ثقافت سے روشناس کرائے گی۔”

طباخ سفارت کاروں کا انتخاب کرنے میں جیمز بیئرڈ فاؤنڈیشن نے محکمہ خارجہ کی مدد کی۔ یہ ادارہ امریکہ کی کھانے پینے کی ثقافت سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد کو اعزازات بھی دیتا ہے۔

کرسیوں پر بیٹھے ایک مرد اور عورت مصافحہ کر رہے ہیں اور اینٹونی بلنکن انہیں دیکھتے ہوئے تالیان بجا رہے ہیں (State Dept./Chuck Kennedy)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن جیمز بیئرڈ فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کلیئر ریخنباخ اور امریکی محکمہ خارجہ کے چیف آف پروٹوکول رفس گفورڈ کی سفارتی طباخی کی شراکت کے دوبارہ آغاز کے سمجھوتے پر دستخط کرنے کے بعد اُن کی تعریف کر رہے ہیں۔ (State Dept./Chuck Kennedy)

 

فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کلیئر ریخنباخ نے کہا کہ “شیفوں کا بہت اثر و رسوخ ہوتا ہے، اُن کی بات مانی جاتی ہے۔ لہذا یہ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے کہ ہم اس [اثرورسوخ] کو معاشرے کی بھلائی، اور کھانے پکانے کے نظام کی بہتری کے لیے بروئے کار لائیں۔”

شیف اور انسانی بنیادوں پر مدد کرنے والے ہوزے اینڈرس بھی طباخ برادری کے رکن ہیں۔ وہ اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکے کیونکہ وہ اور اُن کی غیرمنفعتی تنظیم ورلڈ سنٹرل کچن کے اراکین ترکیہ میں ہیں اور حالیہ زلزلے کے متاثرین کو روزانہ 50,000 کھانے فراہم کر رہے ہیں۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے اِس تباہ کن زلزلے سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اینڈرس نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ “میں نے کھانے کی پلیٹ میں ہمت پیدا کرنے، امید دلانے، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی طاقت دیکھی ہے۔”

اینٹونی بلنکن نیلی جیکٹوں والے افراد کے درمیان کھڑے ہیں (State Dept./Chuck Kennedy)
محکمہ خارجہ کے بینجمن فرینکلن روم میں طباخی سفارت کاری کی شراکت کی دوبارہ شروعات کی تقریب کے دوران وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن شیفس اور اُن کے دائیں طرف کھڑیں، تانیا ہالینڈ جیسے امریکہ کی طباخی برادری کے دیگر اراکین کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔ (State Dept./Chuck Kennedy)

اس پروگرام کو ترتیب دیتے وقت محکمہ خارجہ کا مقصد امریکہ کی  خوردونوش کی مالامال متنوع ثقافت کو اجاگر کرنا تھا۔ کھانے بنانے والے پیشہ ور افراد میں آبائی امریکیوں کے کھانے بنانے والوں سے لے کر تارکین وطن کے کھانے بنانے تک سب کو نمائندگی حاصل ہے۔

انہی میں سے ایک طباخی سفارت کار جیروم گرانٹ ہیں۔ ‘محل بی بی کیو’ کے نام سے واشنگٹن میں اُن کا باربی کیو ریستوران ہے جو اِن کے افریقی اور فلپائنی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ افریقی نژاد امریکیوں کی تاریخ اور ثقافت کے سمتھسونین کے قومی عجائب گھر کے اندر واقع سویٹ ہوم کیفے کے وہ پہلے ایگزیکٹو شیف بھی تھے۔ انہوں نے بتایا  کہ وہ اپنا باربی کیو دنیا کو دکھانے کے لیے بے تاب ہیں۔

گرانٹ نے بتایا کہ “یہ [ریستوران] اس بات کی علامت ہے کہ میں کون ہوں اور میری پرورش کس طرح ہوئی۔ [یہ] کھانے پکانے سے جڑی میری محبت، [اور] میٹھی، نمکین اور مصالحے دار سب کھانوں سے میری محبت کی علامت ہے اور حقیقی معنوں میں ظاہر کرتا ہے کہ میرے فرِج میں کیا ہے۔”

بوسٹن کے فاکس اینڈ دی نائف نامی اطالوی ریستوران کی مالکہ اور شیف کیرن اکونووچ نے کہا کہ کھانے سے سب کا تعلق ہوتا ہے کیونکہ ہم عام طور پر کھانے کے دوران ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ “ہم اپنے اختلاف دیکھنے کی بجائے اپنی مماثلتیں دیکھنے کی خاطر مل بیٹھنے، ایک تھالی میں کھانے کے لیے کھانوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔”