“یہ ہیرے کہاں سے آتے ہیں اور ان سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟”

یہ ایسے سوال ہیں جو کم و بیش 25 تیس سال کی عمر کے گاہک خاص طور پر پوچھتے ہیں۔ ہیروں کے خریداروں کی بڑی تعداد انہی لوگوں پر مشتمل ہے۔

1980 اور 1990 کے عشروں میں پیدا ہونے والی نسل کے ارکان اب اپنی عمروں کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں ہیں اور صارفین کی حیثیت سے بڑھتی ہوئی قوت بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ جب ہیرے خریدنے کی بات ہو تو وہ ایسے قیمتی پتھر خریدنا چاہتے ہیں جنہیں کانوں سے ذمہ دارانہ طور سے نکالا گیا ہو اور ترسیلی سلسلے کے ابتدائی مراحل میں ان سے حاصل ہونے والی رقم جنگی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہوئی ہو۔

دنیا میں ہیروں ست جڑے زیورات کی سب سے بڑی امریکی پرچون کمپنی سگنٹ جیولرز لمیٹڈ کے نائب صدر ڈیوڈ بوفرڈ کہتے ہیں، “یہ نسل دوسروں کی نسبت اخلاقیات اور ذمہ دارانہ طرزعمل کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ یہ عمومی توقع ہوتی ہے کہ سگنٹ جیسی کمپنیوں کو ذمہ دارانہ انداز میں کاروبار کرنا چاہیے اور اپنے ترسیلی سلسلوں کا انتخاب بھی  ذمہ دارانہ طریقے سے کرنا چاہیے۔”

ہیروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ‘کمبرلی پراسیس’ [کمبرلی طریقہ کار] کے نام سے قائم کردہ انضباطی نظام  نے ہیروں کی تجارت کے لیے کم از کم معیارات طے کر رکھے ہیں۔ خام ہیروں کی درآمد و برآمد کے لیے اس پراسیس کی رکنیت کا حصول ضروری ہے۔ اس نظام کو یہ نام جنوبی افریقہ کے علاقے کمبرلی میں منعقدہ  فورم کے نام پر دیا گیا ہے۔ اس تصدیقی نظام کا مقصد ایسے ہیروں کی خریدوفروخت روکنا ہے جن سے حاصل ہونے والی رقم جنگوں پر خرچ کی جاتی ہو۔

People standing in water sifting through dirt and rocks (© Moustafa Cheaiteli/USAID)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آئیوری کوسٹ کے شہر بوبی کے باہر ہیرے چھاننے والے ان کاریگر کانکنوں جیسے لوگوں کو کمبرلی طریقہ کار کے تحت زیادہ تحفظ حاصل نہیں۔ (© Moustafa Cheaiteli/USAID)

تاہم عالمی برادری میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ کمبرلی طریقہ کارمیں بیان کردہ تعریف ہیروں کے ترسیلی سلسلے میں انتہائی کمزور کڑیوں کی حفاظت کے لیے کافی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جنگی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ہیروں کی کمبرلی طریقہ کار میں کی گئی تعریف ریاستی گروہوں اور دوسرے کرداروں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں سے خاطرخواہ طور پر نہیں نمٹتی اورتراشیدہ اور چمک دار ہیروں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

کڑے معیارات

اس سلسلے میں معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم [او ای سی ڈی] کے تیار کردہ  “چھان پھٹک کے راہنما اصولوں” پر عمل کے حق میں اٹھنے والی آوازیں تقویت پا رہی ہیں۔ شفافیت اور اخلاقی اعتبار سے ذمہ دار ذرائع پر انحصار کرنے کے حوالے سے یہ ایک زیادہ موثر ضابطہ ہے۔ اس کے رہنما اصول ہیروں سمیت تمام معدنیات پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان میں کمبرلی طریقہ کارکی تعریف وسیع کر کے ‘انتہائی خطرات’ کے حامل اُن  خطوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو اُن علاقوں پر مشتمل ہیں جو سیاسی عدم استحکام، ادارہ جاتی کمزوری اور وسیع پیمانے پر تشدد سے دوچار ہیں۔

‘ورلڈ ڈائمنڈ کونسل’ کے قائم مقام صدر سٹیفن فشلر کہتے ہیں، “کونسل کان کنوں کے لیے پائیدار اور محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ‘اوای سی ڈی کے چھان پھٹک کے راہنما اصولوں’ میں یقین دہانی کا عمل اس سوچ کو آگے بڑھانے میں اہم عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورلڈ ڈائمنڈ کونسل ایک عالمی ادارہ ہے جس کا مقصد جنگی مقاصد کے لیے فروخت کیے جانے والے ہیروں کو مارکیٹ میں آنے سے روکنا ہے۔

اگرچہ ‘اوای سی ڈی’کے تیار کردہ رہنما اصولوں  کی حیثیت اختیاری ہے تاہم یہ دنیا بھر میں ذمہ دارانہ ذرائع سے معدنیات کے حصول کے لیے بنائے گئے ضوابط کے لیے بنیاد مہیا کرتے  ہیں۔

بوفرڈ کہتے ہیں، “سگنٹ کے پاس ہیروں کی عالمی ترسیل کا ایک وسیع اور پیچیدہ ترسیلی سلسلہ ہے۔ ہم نے ذمہ دار ذرائع سے ہیرے حاصل کرنے کے اپنے ضوابط کی بنیاد عالمگیر رہنمائی اور معیارات پر رکھی ہے جن میں او ای سی ڈی  کے چھان پھٹک کے راہنما اصول بھی شامل ہیں۔ یہ ناصرف ہیروں کی صنعت کے حوالے سے بہترین طریقہ عمل ثابت ہوا ہے بلکہ تمام صنعتوں اور معدنیات کے لیے بھی اس کی یہی اہمیت ہے۔

Chart showing steps of Kimberley Process and OECD Due Diligence Guidance (J.Maruszewski/ State Dept. Source: OECD, Kimberley Process)
(J.Maruszewski/ State Dept.)

غیرمنفعتی قانونی تجارتی ادارے “سناروں کی نگران کمیٹی” کی صدر اور چیف ایگزیکٹو ٹفنی سٹیونز کا کہنا ہے کہ کمپنیاں یہ یقین دہانی حاصل کر سکتی ہیں کہ ان کے ترسیل کنندگان ایسے ہیروں کی تجارت کرتے ہیں جن کی آمدنی جنگی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوتی اور ان ان کے معیارات پر پورا نہ اترنے والے لوگوں کے ساتھ کاروبار سے انکار کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “بڑے تجارتی اداروں کا اپنے ترسیل اور فروخت کنندگان پر زیادہ اثرو رسوخ ہوتا ہے اور وہ انہیں ذمہ دارانہ طرزعمل پر مجبور کر سکتے ہیں۔ تاہم چھوٹی کمپنیاں بھی ذمہ دار ذرائع سے اشیا کے حصول کے لیے بہت سے اقدامات اٹھا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے ترسیلی سلسلے سے منسلک تمام کرداروں سے تفصیلی سوالات اور اپنے گاہکوں سے ان کے نزدیک اہم معاملات پر بات چیت کے ذریعے اس ضمن میں بہتر نتائج کے حصول میں مدد ملتی ہے۔”

فری لانس لکھاری مائیو ایلسپ نے یہ مضمون تحریر کیا۔