امریکی صحافت میں پلٹزر پرائز سے بڑھکر بڑا اعزاز شاید ہی کوئی ہو۔
1917ء سے ہر سال دیے جانے والے پلٹزر پرائز (انعامات) ایسی رپورٹنگ کے اعتراف کے طور پر دیئے جاتے ہیں جو طاقتور افراد، کاروباروں اور اداروں کو قابل احتساب ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح یہ انعامات اُس صحافت کے اعتراف پر بھی دیئے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں نئی پالیسیاں وجود میں آئی ہوں، قوانین تبدیل ہوئے یوں یا جانیں بچائی گئی ہوں۔
میزوری کے صحافت کے سکول (‘میزوری سکول آف جرنلزم’) کی پروفیسر اور پلٹزر انعام کی جج، کیتھی کائیلی کہتی ہیں، “کیا آپ کو معلوم ہے کہ پلٹزر انعامات مشہور لوگوں کی مدح سرائی کرنے والے مضامین پر نہیں دیئے جاتے۔ بلکہ وہ ایسی سنجیدہ صحافت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے دیئے جاتے ہیں جس میں زیادہ تر مراعات یافتہ لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے اور زیادتی کا شکار ہونے والوں کی دلجوئی کی جاتی ہے۔”
اس انعام کا نام جوزف پلٹزر کے نام پر رکھا گیا جو کہ اخبار شائع کرنے والے ایک امیر آدمی تھے۔ اُن کی وصیت کے مطابق صحافیانہ عظمت کے اعتراف میں اس انعام کا اجرا کیا گیا۔ (انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی کے صحافت کے گریجوایٹ سکول کے قیام کے لیے ترکے میں رقم بھی چھوڑی۔) شروع شروع میں صحافت میں پلٹزر انعامات کے دو زمرے ہوا کرتے تھے اور دیگر دو کتابوں، ڈراموں یا موسیقی کے لیے مختص تھے۔
آج پلٹزر انعامات کے 15 زمرے ہیں:

-
- عوامی خدمت
- بریکنگ نیوز کی رپورٹنگ
- تحقیقاتی رپورٹنگ
- وضاحتی رپورٹنگ
- مقامی رپورٹنگ
- قومی رپورٹنگ
- بین الاقوامی رپورٹنگ
- فیچر نویسی
- تبصرے
- تنقید
- ایڈیٹوریل نویسی
- ایڈیٹوریل کارٹون بنانا
- بریکنگ نیوز سے متعلق فوٹوگرافی
- فیچروں سے متعلق فوٹوگرافی
- صوتی رپورٹنگ
پلٹزر انعامات کا طریقہ کار
انفرادی اور امریکی ناشرین دسمبر کے شروع میں اسی سال کے دوران کیا جانے والا اپنا بہترین کام ایک ویب سائٹ پر ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کی فیس 75 ڈالر فی مضمون ہوتی ہے۔ اس کی آخری تاریخ 25 جنوری ہوتی ہے۔
فروری میں جج ہر ایک زمرے میں جمع کرائے جانے والے مواد کا جائزہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مصنفوں، ایڈیٹروں اور ناشرین سمیت ججوں کا تعلق نامور ماہرین تعلیم اور صحافت کے پیشہ ور ماہرین سے ہوتا ہے۔ انعامات کے نائب منتظم، بڈ کلیمنٹ کہتے ہیں کہ ججوں کے حوالے سے “ہم علاقائی تنوع لانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم نسلی، صنفی تنوع لانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم پورے ملک سے (ججوں) کو چننے کی کوشش کرتے ہیں۔”
حالیہ برسوں میں جج مختلف زمروں کے تحت پلٹزر انعامات میں شمولیت کے لیے داخل کرائے جانے والے 1,100 فن پاروں کا جائزہ لے چکے ہیں۔ کلیمنٹ کہتے ہیں کہ 2020ء میں صوتی رپورٹنگ کی شمولیت رواں سال میں انعامات کے زمروں کی تعداد میں اضافہ کر دے گی۔ آخر میں تمام جج ہر ایک زمرے سے چوٹی کے تین فن پارے منتخب کرتے ہیں اور اِن کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔
جب جج فائنل میں پہنچنے والوں کے ناموں کا اعلان کر دیتے ہیں تو پلٹزر کے 19 رکنی بورڈ کا دو روزہ اجلاس ہوتا ہے جس میں بورڈ کے ارکان جیتنے والوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس بورڈ میں سرکردہ صحافی یا امریکی میڈیا کے اداروں سے تعلق رکھنے والے اخباری منتظمین اور ماہرینِ تعلیم یا آرٹس سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ہر سال پلٹزر انعام کے منتظم ایک اخباری کانفرنس میں جیتنے والوں کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس کولمبیا یونیورسٹی کے صحافت کے گریجوایٹ سکول میں منعقد کی جاتی ہے۔
بالعموم یہ انعامات امریکہ کے بڑے اشاعتی ادارے جیتتے ہیں۔ 2020ء میں روزنامہ نیویارک ٹائمز نے تین انعامات جیتے۔ اِن میں سے ایک میں سلسلہ وار مضامین کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ نیویارک سٹی کی ٹیکسی کی صنعت نے کس طرح کمزور ٹیکسی ڈرائیوروں کا استحصال کیا۔ تاہم جج نسبتاً چھوٹے، اور مقامی اداروں کے کام پر بھی انعامات دیتے ہیں۔

مثلاً گزشتہ برس (پروپبلیکا کے مالی تعاون) سے چلنے والے اخبار اینکریج ڈیلی نیوز نے عوامی خدمت کے شعبے کا باوقار ترین پلٹزر انعام جیتا۔ یہ واحد انعام ہے جس میں سونے کا تمغہ دیا جاتا ہے۔ اخبار نے مضامین کا ایک سلسلہ شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ دیگر مسائل کے علاوہ، ریاست الاسکا کے گاؤں کی ایک تہائی تعداد کو پولیس کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے دیگر چار چھوٹے اداروں نے بھی گزشتہ سال پلٹزر انعامات جیتے۔
پلٹزر انعامات سے اخباری خبروں کو تقویت ملتی ہے
1986ء میں میری پیٹ فلیہرٹی کو صحافتی سکول سے نکلے ہوئے نو برس ہوئے تھے جب انہوں نے اور اب کالعدم اخبار پٹس برگ پریس میں ایک اور صحافی نے پلٹزر انعام جیتا۔ انہوں نے مضامین کے ایک سلسلے میں بتایا کہ بعض لیبارٹریاں کس طرح گردوں کے ضرورتمند امیر لوگوں اور گردے بیچنے والے غریب لوگوں کے درمیان ایک واسطے کے طور پر کام کرتی تھیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے برعکس ہوا کہ اعضا کی پیوندکاری میں اعضا اُن لوگوں کو سب سے پہلے لگائے جانے تھے جنہیں اِن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
اس سلسلہ مضامین کی وجہ سے دنیا بھر میں اعضا کے عطیات میں شفافیت آئی اور اِن کے بارے میں معیارات مقرر کیے گئے۔
ایک چھوٹے اخبار سے تعلق رکھنے اور اپنے پیشے میں نسبتاً نووارد ہونے کی وجہ سے فلیہرٹی پلٹزر انعام جیتنے پر حیران ہوئیں۔ آج کل روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے والی فلیہرٹی کہتی ہیں، “میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز اور چونکا اور بھونچکا کر دینے (والی خبر) تھی۔”
میزوری کی پروفیسر اور سابق جج، کائیلی کہتی ہیں کہ جب پلٹزر انعامات دیئے جاتے ہیں تو یہ اخباری شہ سرخیوں کی زینت بنتے ہیں۔ یہ چیز اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ امریکی عوام صحافت کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ وہ ان انعامات کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی ایک عملی شکل قرار دیتے ہیں۔ یہ ترمیم پریس اور اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔