شہر کی سڑک پر حفاظتی لباس پہنے فوجی سپرے کر رہے ہیں۔ (© Ahn Young-joon/AP Images)
4 مارچ کو سیئول، جنوبی کوریا میں حفاظتی لباس پہنے فوجی ایک سڑک پر کورونا وائرس کے خلاف حفاظت کے طور پر جراثیم کش دوا کا سپرے کر رہے ہیں۔ (© Ahn Young-joon/AP Images)

چین میں شروع ہونے والے مہلک کورونا وائرس کے پھوٹ پڑنے کے بارے میں علم ہونے کے بعد ہفتوں کے اندر، جنوبی کوریا میں حکام نے لیبارٹریاں کھڑی کر دیں جن میں روزانہ 20,000 شہریوں کے ٹیسٹ کرنے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ تائیوان میں حکام نے عوام کو آگاہ کرنے اور افواہوں کو ختم کرنے کے لیے روزمرہ پریس کانفرنسوں کا آغاز کر دیا۔ اور امریکہ میں صحت کے قومی ادارے نے ممکنہ ویکسین کی تیاری تیز تر کر دی ہے۔

تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ فوری، کھلے اور شفاف جوابی اقدامات بے شمار زندگیاں بچاتے ہیں۔

مؤثر صحت عامہ کا مرکز: پوری دنیا کو معلومات میں شریک کرنا۔ مثال کے طور پر 2009 میں جب امریکی محکمہ صحت کے عہدیداروں کو پتہ چلا کہ 130 میل کی دوری پر مختلف مقامات پر رہنے والے دو مریضوں میں ایک نامعلوم قسم کے فلو کی علامات پائی گئی ہیں تو امریکی بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز (سی ڈی سی) نے فوری طور پر بین الاقوامی برادری کو ہوشیار کردیا۔

ساتھ ساتھ دو تصویریں: حفاظتی لباس میں ملبوس طبی عملہ ایک کار ڈرائیور کا ٹیسٹ کے لیے نمونہ حاصل کر رہا ہے (© Ahn Young-joon/AP Images) ؛ ٹیسٹ کے لیے نمونہ حاصل کرنے کے لیے ایک آدمی کے منہ میں نالی ڈالی جا رہی ہے۔(© Ahn Young-joon/AP Images)
مارچ میں جنوبی کوریا میں نئے کورونا وائرس کے مناظر میں “ڈرائیو تھرو” یعنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ٹیسٹ کروانے کی سہولت، بائیں (© Ahn Young-joon/AP Images) اور سیئول کے ایک ہسپتال کے باہر ٹیسٹ کے ایک بوتھ (دائیں) کے منظر بھی شامل ہیں۔ (© Ed Jones/AFP/Getty Images)

کورونا وائرس (کووِڈ-19) کی تازہ ترین وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد، سی ڈی سے نے فوری طور پر 6 جنوری کو وبا کے پھیلنے کی تفتیش کرنے کے لیے اہلکاروں کو وُوہان بھیجنے کی پیشکش کی۔ مگر چینی حکومت نے اس درخواست کا اس وقت تک کوئی جواب نہیں دیا جب تک کہ 16 فروری کو امریکی ماہرین ڈبلیو ایچ او کے مشن میں شامل ہوکر چین نہیں پہنچ گئے۔

روزنامہ وال سٹریٹ جرنل نے خبر دی ہے کہ 31 دسمبر کو صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کو وبا کے پھوٹ پڑنے کی اطلاع دینے کے بعد بھی چینی کمیونسٹ پارٹی نے اِس انتہائی اہم تفصیل کو دبائے رکھا کہ یہ وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد کو لگ سکتی ہے۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے 23 مارچ کو ٹویٹ کیا، “31 دسمبر یعنی جس دن تائیوان نے ڈبلیو ایچ او کو وائرس کے انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہونے کے بارے میں متنبہ کیا تو اسی اثنا میں چینی حکام نے ڈاکٹروں کو خاموش کرا دیا اور وائرس کے انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہونے کا 20 جنوری تک انکار کرتے رہے جس کے تباہ کن نتائج مرتب ہوئے۔”

لوگ ماسک پہنے ہوئے ایک ڈاکٹر کے اردگرد جمع ہیں۔ (© Kin Cheung/AP Images)
ہانگ کانگ میں لوگ 7 فروری کو لی وینلیانگ کے دعائیہ اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ وہ چینی ڈاکٹر ہیں جن کی چینی حکام کو نئے وائرس کے بارے میں خبردار کرنے پر سرزنش کی گئی۔ (© Kin Cheung/AP Images)

اسی دوران امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سب نے کورونا وائرس کے انفیکشن سے ہونے والی اموات پر تازہ ترین معلومات فراہم کرنا اور وبا کے پھیلنے کو روکنے میں مدد کی خاطر آپس میں ایک دوسرے اور عوام کے ساتھ معلومات کا تبادلہ شروع کر دیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کورونا وائرس کا ردعمل تشکیل دینے میں “پورے امریکہ” کو شامل کیا۔ صحت عامہ کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے اور اس میں ریاستی اور مقامی اہلکاروں، نجی شعبے اور عوام کو شامل کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کی قائم کی جانے والی کورونا وائرس کی نئی ٹاسک فورس روزمرہ تازہ ترین معلومات کے لیے پریس بریفنگ کا اہتمام کرتی ہے جس میں اخباری نمائندوں کو اپنی مرضی سے کوئی بھی سوال پوچھنے کی آزادی ہوتی ہے۔

ماسک پہنے ہوئے ایک آدمی ہاتھ میں موبائل فون پکڑے ہوئے۔ (© Mark Schiefelbein/AP Images)
ایک آدمی 22 جنوری کو بیجنگ میں ایک ایسے موقع پر نئے قمری سال کی رونقوں کی تصویر لے رہا ہے جب وائرس چین میں پھیل رہا تھا۔ (© Mark Schiefelbein/AP Images)

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اس وباء کے پھیلنے کے باوجود ووہان میں پارٹی کے عہدیداروں نے 18 جنوری کو نئے قمری سال کا جشن منایا اور دسیوں ہزاروں افراد نے اکٹھے مل کر کھانا کھاتے ہوئے ایک دوسرے کی پلیٹوں میں سے لکڑی کی تیلیوں سے کھانے کھائے۔

پورے بحران کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی عوام تک معلومات کے پہنچنے کو روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ جب ووہان کے ایک معالج لی ونلیانگ نے اپنے ساتھیوں کو ایک نئے کورونا وائرس کے بارے میں متنبہ کیا تو پولیس نے اس سے تفتیش کی اور اسے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کرنے والے ایک خط پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ بعد میں لی کو ایک مریض کے علاج کے دوران کووڈ -19 کا وائرس لگا اور 6 فروری کو اس کی موت ہوگئی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 18 مارچ کو ایک انٹرویو میں کہا، “چینی حکومت کو اس خطرے کے بارے میں علم تھا، انہوں نے اس کی شناخت کرلی تھی، اور انہیں سب سے پہلے علم ہوا۔ حکومت اس سے درست طریقے سے نہیں نمٹ سکی اور ان گنت جانوں کو خطرے میں ڈال دیئے۔”