بیماریاں سرحدوں کا احترام نہیں کیا کرتیں۔ کووڈ-19 وبا دنیا بھر میں پھیلی اور اس سے 6.6 ملین سے زائد افراد کی جانیں چلی گئیں۔ عالمی معیشت کو اس کی بھاری قیمت اٹھانا پڑی جو 2024 تک 12.5 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکہ موجودہ بیماریوں کا پتہ لگانے اور علاج کرنے، آئندہ وبائی بیماریوں کو روکنے اور پوری دنیا میں انسانی جانیں بچانے کے لیے صحت کی عالمگیر سلامتی کو مضبوط بنانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں امریکہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو تربیت دینے، ٹیسٹوں اور علاج تک رسائی کو بہتر بنانے اور دنیا بھر میں ویکسین کی تیاری میں اضافہ کرنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
صدر بائیڈن نے جون میں عالمی بینک کے وبائی امراض کی تیاری کے لیے قائم کیے جانے والے نئے فنڈ کے لیے امریکی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا۔ کہ “متعدی بیماریاں سرحدوں کو پار کرتی ہیں، موت کا سبب بنتی ہیں، معاشروں اور معیشتوں کو درہم برہم کرتی ہیں، اور قومی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی ہیں۔ ملک کے اندر اور دنیا بھر میں زندگیوں کے تحفظ کے لیے ہمیں وبائی امراض کی تیاری کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاریوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔”
حال ہی میں امریکہ نے بیرونی ممالک میں صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے کے لیے 1.25 ارب ڈالر کی اضافی رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ نئی فنڈنگ امریکہ کے ایک برس پہلے کیے جانے والے مالی وعدوں کے مقابلے میں تقریباً دوگنا زیادہ ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں صحت کی مد میں دی جانے والی 140 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد کا تسلسل ہے۔
.@SecBlinken: COVID-19 has taught us that when it comes to global health, none of us are safe until all of us are safe — and that our health security is closely interlinked with our economic and national security. We must not waste this hard-earned knowledge. pic.twitter.com/BMlremM1Al
— Department of State (@StateDept) August 20, 2022
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ اگر بیماریوں سے نمٹنے کی بات کی جائے تو”عدم مساوات خطرے کو فروغ دیتی ہے۔” عالمی صحتت کے حوالے سے امریکہ جن طریقوں سے مساویانہ سوچ کو فروغ دیتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
- امریکہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو بیماریوں سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے عالمی بینک میں وبائی فنڈ کی حمایت کرتا ہے اور اس ضمن میں امریکہ نے ابتدائی طور پر 450 ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔
- امریکہ افریقی ممالک اور بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں علاقائی بنیادوں پر ویکسین کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
- امریکہ نے 2023 میں ایک پائلٹ ‘گلوبل میڈیکل سپلائی کلیئرنگ ہاؤس’ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ طبی آلات اور معلومات تک دنیا کے ممالک کی رسائی کو بہتر بنایا جا سکے، شفافیت میں اضافہ کیا جا سکے اور رسد کے عالمی سلسلوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔
.@SecBlinken: The systems put in place by @PEPFAR have become an integral part of the health security architecture of countries around the world. We are continuing to build on PEPFAR’s successes to create a stronger global health security architecture. pic.twitter.com/hP4Ro2XLDj
— Department of State (@StateDept) December 2, 2022
عالمی صحت کو تقویت پہنچاتے ہوئے امریکی کوششوں کا ہدف بعض مخصوص بیماریاں ہیں۔ اِن کوششوں میں مندرجہ ذیل پروگرام اور شراکتداریاں شامل ہیں:-
- امریکی صدر کا ایڈز کے علاج اور روک تھام کا ہنگامی منصوبہ (پیپفار): کسی واحد ملک کی طرف سے ایک بیماری سے نمٹنے کے لیے تاریخ میں اس سب سے بڑے منصوبے کے تحت 25 ملین جانیں بچائی جا چکی ہیں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے 340,000 کارکنوں کو تربیت دی گئی ہے۔
- امریکی حکومت، شراکت دار ممالک اور نجی شعبے نے حال ہی میں اگلے تین سالوں میں ایچ آئی وی/ایڈز، ٹی بی اور ملیریا سے نمٹنے کے عالمی فنڈ میں 14.25 ارب ڈالر کی ریکارڈ رقم دینے کے وعدے کیے ہیں۔
- امریکہ نے کوویکس کی شراکت داری میں دنیا کے ممالک کو کووڈ-19 ویکسین کی 671 ملین سے زیادہ خوراکیں بطور عطیہ دی ہیں اور ویکسین کے ‘گاوی’ نامی اتحاد کے لیے 4 ارب ڈالر دیئے ہیں جس سے کووڈ-19 کے عالمی پروگرام کوویکس کو تقویت ملے گی۔
- فروری میں شروع کیے جانے والے ‘کووڈ-19 گلوبل ایکشن پلان’ کے ذریعے بھی پوری دنیا میں ویکسی نیشن لگانے میں مدد کی جا رہی ہے۔ اس پلان کے تحت نقصان پہنچانے والیں گمراہ کن اور غلط معلومات کو اجاگر کیا جا رہا ہے، ٹیسٹوں اور علاج تک رسائی کو بہتر بنایا جا رہا ہے، اور عالمی صحت کے ڈھانچے کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ اس پلان میں 30 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ “اگر اگلی وبائی بیماری کی تیاری کی بات کی جائے تو کام کرنے کے مقابلے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی زیادہ قیمت چکانا پڑے گی۔ اس وقت تیاری پر خرچہ کرنا درست اور عقلمندی کا کام ہوگا۔”