امریکی مباحثے اُس وقت کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں جب ریاست ایلانوائے کے ایک وکیل نے قوم کو غلامی کے خلاف اخلاقی دلائل دے کر مبہوت کر دیا تھا۔
یہ بات 1858ء کی ہے۔ سٹیون ڈگلس کے ساتھ مباحثہ کرنے والے، ابراہام لنکن کے دلائل کا نتیجہ سینیٹ کی اُس نشست کی جیت کی صورت میں تو نہ نکلا جس کے لیے وہ انتخاب لڑ رہے تھے مگر ملک بھر میں اِن دلائل کی کاپیاں تقسیم کی گئیں اور دو سال بعد یہی دلائل لنکن کو وائٹ ہاؤس میں کرسی صدارت پر بٹھانے کا پیش خیمہ بنے۔
پھر ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد یعنی 1976ء میں ہر ایک صدارتی انتخاب کے لیے قومی سطح کے مباحثوں کے انعقاد کا آغاز ہوا۔ اس سال کے مباحثوں کے پروگراموں میں بڑی پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کے درمیان تین اور نائب صدارت کے امیدواروں کے درمیان ایک مباحثے کا پروگرام شامل تھا۔
اس سال کورونا وائرس کی نئی عالمی وبا کی وجہ سے تبدیلیاں کی جائیں گں۔ ممکن ہے کہ یہ مباحثے ماضی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں کیونکہ عوامی سطح پر درپیش صحت کے مسائل کی وجہ سے امیدواروں کو ایک روائتی انتخابی مہم چلانے کے لیے نسبتاً کم مواقع ملے ہیں۔

لنکن اور ڈگلس کے درمیان ہونے والے مباحثے آج کے مباحثوں سے بہت مختلف تھے۔ اُس وقت تین گھنٹوں کے دورانیے میں ہر امیدوار لگاتارایک گھنٹہ بولتا تھا۔ اس کی کی بجائے، آج کے امیدوار صحافیوں کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے باری باری جوابات دیتے ہیں۔ آج کے مباحثوں کا کل دورانیہ 90 منٹ ہوتا ہے اور انہیں ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا جاتا ہے۔ ماضی میں ٹیلی گراموں کے ذریعے مباحثوں کے متن بھیجنے کی بجائے، آج کے مباحثوں کو کروڑوں لوگ براہ راست دیکھتے ہیں، اور پریس اور سوشل میڈیا دونوں، امیدواروں کے خیالات اور ناظرین کے ردعمل کو مباحثوں کے دوران اور اِن کے بعد عوام تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
امریکی مباحثوں میں عام طور پر ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے صدارتی امیدوار شامل ہوتے ہیں اور دوسری پارٹیوں کی نمائندگی کرنے والے امیدوار نہیں ہوتے۔ تاہم، تیسری پارٹی کے امیدواروں/ آزاد امیدواروں کے نام بیلٹ پیپر پر ہوتے ہیں۔
غیرجانب دار تنظیم، خواتین ووٹروں کی لیگ برسوں تک یہ مباحثے منعقد کرتی رہی۔ مگر 1988ء میں پارٹی کے رہنماؤں نے اِن مباحثوں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اُس کے بعد سے صرف اُن امیدواروں کو مباحثوں میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے جنہیں عوامی جائزورں میں زیادہ حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے موسم خزاں میں ہونے والے مباحثوں میں بالعموم صرف دو ہی امیدوار ہوتے ہیں۔ صرف 1992ء میں ہونے والے مباحثوں میں آزاد امیدوار راس پیرو شامل ہوئے۔
کیا وہ ووٹروں کا ذہن بدل پائیں گے؟
پینسلوینیا یونیورسٹی میں اینن برگ پبلک پالیسی سینٹر کی ڈائریکٹر، کیتھلین ہال جیمیسن کہتی ہیں کہ مباحثوں کے نتیجے میں ووٹروں پر پڑنے والے حقیقی اثرات کا جانچنا تو مشکل ہوتا ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ “اِن سے فرق ضرور پرٹا ہے۔” ان کا کہنا ہے، “ایک ہی جگہ پر اور ایک ہی جیسے سوالوں سے [بڑی پارٹیوں] کے امیدواروں میں فرق کرنا، انتخاب کے موقعوں میں سے ایک موقع ہوتا ہے۔ آپ کو اُن کے مزاج اور اُن کی غیر متوقع صورت حال کو بھانپنے کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔
برمنگھم میں واقع الاباما یونیورسٹی میں ابلاغ کے مطالعے کے پروفیسر، بل بنوا کا کہنا ہے کہ ووٹروں کو امیدواروں کی شخصیت اور کردار کے بارے میں اندازہ ہونے کے ساتھ ساتھ ، مباحثوں سے امریکی ناظرین کو ان مسائل کے بارے میں آگاہی بھی ملتی ہے اور یہ بھی علم ہو جاتا ہے کہ پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار اِن مسائل پر کیا رائے رکھتے ہیں۔

بنوا کہتے ہیں، “مباحثوں نے کچھ ووٹروں کی پسند ناپسند کو تبدیل کیا ہے لیکن عام طور پر وہ پہلے سے موجود رویوں کو ہی تقویت پہنچاتے ہیں۔ خالی مباحثوں سے کوئی (انتخابی) مہم جیتی یا ہاری نہیں جا سکتی مگر ایک بات یقینی ہے کہ یہ مہم کو طاقت وار یا کمزور ضرور بناتے ہیں۔”
بنوا کا کہنا ہے کہ لنکن کے زمانے سے ہٹ کر ناظرین کی ایک نئی عادت سامنے آئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ناظرین جب مباحثہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اسی وقت وہ سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں دوسرے لوگوں کی رائے کو بھی دیکھتے رہتے ہیں جس سے امیدوار جو کہہ رہے ہوتے ہیں اُس سے دھیان سے توجہ میں خلل پڑتا ہے۔”
کووڈ-19 کی وجہ سے اس سال ممکن ہے کہ مباحثے سامعین کی موجودگی کے بغیر منعقد کیے جائیں۔ جیمیسن کہتی ہیں یہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے کیونکہ ووٹر مجمعے کی تالیوں سے متاثر ہوئے بغیر اپنی رائے قائم کر سکیں گے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میں حکومت اور سیاسیات کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، سٹیلا ایم راؤز کہتی ہیں کہ امریکہ میں انتخابی مباحثے دیگر جمہوریتوں سے اس لیے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ سیاسی نظام کا جھکاؤ پارٹی کے پلیٹ فارم سے زیادہ انفرادی امیدوار کی طرف ہوتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے، “اس ملک میں مباحثے ایک بہت ہی انفرادی چیز ہیں۔”
مباحثے کی پھبتیاں اور لغزشیں، مباحثے کے بعد خبروں پر چھائی رہتی ہیں۔ بعض اوقات ردعمل سچ کو چھپا دیتے ہیں۔ 1988ء میں نائب صدر کے امیدواروں کے مباحثے کے دوران لائیڈ بینسٹن نے اُس وقت ڈین کوئیل پر طنز کی جب کوئیل نے یہ کہا کہ اُنہیں کانگریس کا اتنا ہی تجربہ حاصل ہے جتنا کہ جان ایف کینیڈی کو صدر بننے سے پہلے حاصل تھا۔
بینسٹین نے جواباً کہا، “میں نے جیک کینیڈی کے ساتھ کام کیا ہے۔ میں جیک کینیڈی کو جانتا تھا۔ جیک کینیڈی میرے دوست تھے۔ سینیٹر آپ جیک کینیڈی نہیں ہیں۔” جیمیسن کہتی ہیں کہ کوئیل نے اپنے تجربے کی مدد کے بارے میں درست بات کی تھی مگر اس فقرے بازی میں سچ کہیں گم ہو کے رہ گیا۔

اب بھی مباحثے ووٹروں کو امیدوارں کے حکومت چلانے کے انداز کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ شکی لوگ اگرچہ بعض اوقات شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ سیاست دان انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدے پورے نہیں کرتے، تاہم جیمیسن کا کہنا ہے کہ شواہد اس کے برعکس ہیں۔ صدور اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے اوسطاً 60 فیصد وعدے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جیمیسن کہتی ہیں کہ مباحثوں میں “بہت حد تک آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا کریں گے۔”
جیمیسن کے مطابق 1980 کا مباحثہ اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ انجنیئرنگ کے پس منظر کے حامل، جمی کارٹر کو حقائق تو سب معلوم تھے مگر وہ عوام کے سامنے وسیع تر تصویر پیش نہ کر سکے۔ رونالڈ ریگن اس کے برعکس تھے: اُن کے پاس تفصیلات کم تھیں مگر وہ ایک اچھے داستان گو تھے جس سے وہ عوام کے دل میں جگہ بنا لیتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں نے اپنی اپنی خوبیوں اور خامیوں کے مطابق حکومتیں چلائیں۔
ریگن، مباحثے کے دوران یادگار جملے تراشنے کے ماہر تھے اور انہوں نے عوام سے یہ سوال پوچھنے کے بعد انتخاب جیتا، “چار سال پہلے (کے مقابلے میں آج) کیا آپ زیادہ خوشحال ہیں؟
گو کہ ابلاغ عامہ کی خبروں میں زیادہ تر توجہ اس طرح کے ایک سطری جملوں پر مرکوز رہتی ہے مگر ووٹروں کو مسائل کے بارے میں مباحثہ سن کر زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ بنوا بتاتے ہیں کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مباحثہ دیکھنے والے لوگوں کے مسائل کے بارے میں علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں کی نسبت جنہوں نے مباحثہ نہیں دیکھا ہوتا، مباحثہ دیکھنے والے مسائل کے بارے میں زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔ .