(State Dept./Doug Thompson)

اگر آپ نے  ٹوئٹر، فیس بُک یا سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارموں پر صدر اوباما کی تحریریں پڑھی ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ حیرانگی سے سوچ رہے ہوں کہ 20 جنوری 2017  کو جب وہ اپنا عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھال لیں گے تو پھر ان کے اکاؤنٹس کا کیا بنے گا۔

وائٹ ہاؤس میں ڈیجیٹل سٹریٹجی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کر چکنے والے میکن فلپس  کہتے ہیں، “اوباما انتظامیہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب سوشل میڈیا کے بہت سے نیٹ ورکوں کا آغاز ہو رہا تھا۔” (میکن فلپس اب محکمۂ خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل پروگرامز کے کوآرڈینیٹر ہیں، جو شیئر امریکہ پروڈیوس کرتا ہے۔)

اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ان تمام ٹوئیٹس اور فیس بک کی پوسٹس کو محفوظ کرنے کا تعلق ہے، وائٹ ہاؤس کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔

امریکہ میں  پُرامن انتقالِ اقتدار اور صدارتی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی ایک پرانی  روایت موجود ہے۔ اوباما کے سوشل میڈیا کے لیے وائٹ ہاؤس جس طریقۂ کار پر عمل کرے گا  وہ اس روایت کے مطابق ہوگا۔

فلپس نے کہا، “موجودہ اکاؤنٹس کو ان کے فالوورز سمیت بالکل اُسی طرح نئے صدر کے حوالے کر دیا جائے گا، جیسے کاروں کے بیڑے، قلم اور کاغذات کو حوالے کیا جائے گا۔ نئی انتظامیہ ان اثاثوں کو جس حد تک قیمتی سمجھتی ہے، اس حد تک  انہیں بلاروک ٹوک ان تک رسائی حاصل ہونا چاہیے۔”

ٹوئٹر ہینڈل @POTUS 20 جنوری کو اپنے 1 کروڑ 10 لاکھ  فالوورز سمیت آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے ہو جائے گا۔ مگر اس کی ٹائم لائن پر کوئی ٹویٹ نہیں ہوگی۔ نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈز ایڈمنسٹریشن ایک نیا ہینڈل @POTUS44  کے نام سے تخلیق کرے گی اور اسے صدر اوباما کی ٹوئٹر ٹائم لائن کی ٹویٹس کے ساتھ چلائے گی۔ اِن میں اُن کو موصول ہونے والے اور ان کی طرف سے بھیجے ہوئے ٹوئیٹس شامل ہوں گے۔ عام لوگوں کو اس تک رسائی حاصل رہے گی۔ اسی طرح  فیس بُک، انسٹاگرام اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارموں کے مندرجات کو بھی محفوظ کیا جائے گا۔

فلپس کا کہنا ہے، “عوام کی طرف سے صدر کو لکھے جانے والے پیغامات سے ایک مخصوص دور میں عوام کے رویوں اور جذبات کی زبردست جھلک دکھائی دیتی ہے۔ میرے خیال میں اگلے 20 یا 40 برسوں میں، نہ صرف یہ جاننا انتہائی دلچسپی کا باٰعث ہوگا کہ صدر ایک مخصوص وقت میں کیا کر رہے تھے بلکہ یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ وہ لوگوں سے کیا سن رہے تھے۔”