صدر ٹرمپ نے ایسی چینی پالیسیوں اور طریقہائے کار سے نمٹنے کے لیے 22 مارچ کو اقدامات اٹھائے ہیں جن سے امریکی معیشت، چین میں امریکی کاروباروں اور امریکی اختراعات کو نقصان پہنچتا ہے۔ اِن اقدامات کا تعلق ٹکنالوجی کی منتقلی اور املاک دانش سے ہے۔

وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر نے کہا، “میری انتظامیہ کے دور میں امریکی خوشحالی کی چوری ختم ہو جائے گی۔ بالآخر، ہم اپنی صنعت کا دفاع کرنے اور امریکی محنت کشوں کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنے جا رہے ہیں۔”

صدر نے اِن خیالات کا اظہار اُس یاد داشت پر دستخط کرنے سے قبل کیا جس میں انہوں نے مخففاً یو ایس ٹی آر کہلانے والے امریکہ کے تجارتی نمائندے کو چین  سے خلائی مصنوعات، ہتھیاروں، معلوماتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی اور مشینری سمیت برآمد کی جانے والی مخصوص اشیاء پر محصولات میں اضافہ کرنے پر غور کرنے کی ہدایت کی۔

یہ اقدام اُن ذمہ دارانہ اقدامات میں سے ایک ہے جس کی نشاندہی 18 اگست 2017 کو یو ایس ٹی آر کی جانب سے کی جانے والی تحقیات میں کی گئی ہے۔ اِن اقدامات میں چینی حکومت کے ٹکنالوجی کی منتقلی، املاک دانش اور اختراعات سے متعلق اقدامات، پالیسیاں اور طرزہائے عمل غیرمعقول ہیں یا امتیازی ہیں اور بوجھ بننے کےساتھ ساتھ امریکی تجارت میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ تحقیقات “301”  تحقیق کہلاتی ہیں جن کی تجارتی قانون مجریہ 1974 کی ایک دفعہ میں اجازت دی گئی ہے۔

صدر نے متعلقہ محکموں اور اداروں کو ہدایت کی کہ وہ وزیرخزانہ کے ساتھ مل کر کام کریں تا کہ چین کے حساس ٹکنالوجیوں کے حصول سے متعلقہ سرمایہ کاری کے طریقوں کے نتیجے میں امریکہ کو پہنچنے والے اُن نقصانات سے نمٹنے کی خاطراقدامات تجویز کیے جا سکیں جن سے موجودہ اختیارات کے تحت پوری طرح نہیں نمٹا جا رہا۔

301 تحقیق میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ چین امریکی کمپنیوں کو چینی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے املاک دانش کے مالکانہ حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر چین غیر ملکی کمپنیوں کی باکفایت توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی منڈی تک رسائی کی خواہاں غیرملکی کمپنیوں کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ گاڑی بنانے کی مکمل ٹکنالوجی کے بارے میں تفصیل بتائیں۔

امریکہ کے تجارتی نمائندے، رابرٹ لائٹ ہائزر نے ایک بیان میں کہا، “صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ بہرصورت منصفانہ اور دو طرفہ تجارت پر اصرار کرنا چاہیے۔ چین کی بےمثال اور غیرمنصفانہ تجارتی کاروائیاں نہ صرف امریکہ کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں بلکہ ہمارے اتحادیوں اور دنیا بھر کے شراکت داروں کے لیے بھی یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں”