صدر ٹرمپ کا سپریم کورٹ کے جج کا انتخاب: اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟

صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں ایک خالی اسامی کو پُر کرنے کے لیے جج برٹ ایم کیوانو کو نامزد کر رہے ہیں۔

ییل لا سکول سے گریجوایشن کرنے والے کیوانو ایک تجربہ کار جج ہیں اور آج کل ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں امریکہ کی اپیلوں کی [وفاقی] عدالت کے جج ہیں۔

صدر ٹرمپ نے 9 جولائی کو وائٹ ہاؤس سے ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر کی جانے والی ایک تقریب میں کہا، ” جج کیوانو بے داغ کردار، بہترین اہلیتوں کے ساتھ ساتھ  قانون کے تحت مساویانہ انصاف کے مصدقہ عزم کے مالک ہیں۔”

کیوانو نے اپیلوں کی عدالت میں اپنی نامزدگی سے قبل وائٹ ہاؤس میں صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں کئی ایک عہدوں پر کام کیا جن میں سینیئر معاون وکیل اور صدر کے معاون کے عہدے بھی شامل ہیں۔

اس کے بعد کیوانو نے ہارورڈ، ییل اور جارج ٹاؤن یونیورسٹیوں سمیت ملک کے چوٹی کے اداروں میں سے بعض میں طالب علموں کو قانون پڑھایا۔ وہ گھربار والے آدمی ہیں اور میری لینڈ کی کمیونٹی کے جس میں وہ رہتے ہیں ایک متحرک رکن ہیں۔ دو بچیوں کے والد کی حیثیت سے وہ اپنی بیٹیوں کے سکول میں باسکٹ بال سکھاتے ہیں۔ وہ میراتھن دوڑ میں حصہ لیتے ہیں اور واشنگٹن میں خیراتی تنظیموں میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔

کیوانو نے وائٹ ہاؤس کی تقریب کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میرا قانونی فلسفہ سیدھا سادہ ہے۔ ایک جج کو ہر صورت میں آزاد ہونا چاہیے اور قانون کی تشریح کرنا چایے نہ کہ قانون بنانا چاہیے۔ جج کو بہر صورت قانون کی تشریح ایسے ہی کرنا چاہیے جیسا کہ یہ لکھا گیا ہے۔ اور جج کے لیے لازم ہے کہ وہ آئین کی تشریح تاریخ اور روائت اور گزشتہ مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے ہی کرے جیسا کہ وہ لکھا ہوا ہے۔”

کیوانو کو جسٹس انتھونی کینیڈی کے جون میں اُن کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد خالی ہونے والی آسامی کو پُر کرنے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

توثیقی عمل

کابینہ کے اراکین کی طرح سپریم کورٹ کے نامزدگان کی بھی سینیٹ سے توثیق ہونا لازمی ہے۔

Man walking through U.S. Capitol hallway (© Andrew Harrer/Bloomberg/Getty Images)
10 جولائی کو کیوانو امریکی کانگریس میں۔ (© Andrew Harrer/Bloomberg/Getty Images)

نامزدگان کو اپنی توثیقی ووٹنگ سے قبل سینیٹ کی انصاف کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے اور اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں، قانونی فلسفوں اور امریکی آئین کی سربلندی کے لیے اپنے عزم کے بارے میں سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں۔

نامزدگی پر ووٹنگ سے قبل پوری سینیٹ انصاف کی کمیٹی کی رپورٹ پر غور کرتی ہے۔ جج کی تقرری کی توثیق کے لیے سینیٹ کے اکثریتی ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

امریکہ یہ طریقہ کیوں اختیار کرتا ہے؟

 آئین کے تحت دیگر وفاقی ججوں کی مانند سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری بھی “اچھے رویے کے عرصے” کے لیے کی جاتی ہے اور یہ اسی ہی عرصے تک کام کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاحیات اس وقت تک کام کرتے رہتے ہیں جب تک سینیٹ انہیں غیر قانونی یا نامناسب رویے کی پاداش میں برخاست نہ کر دے۔

اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے جج تاحیات خدمات انجام دیتے ہیں۔ صدر اور کانگریس کے ممبران کے برعکس (جو منتخب کیے جاتے ہیں اور عوام کے آگے جن کی وہ خدمت کرتے ہیں جوابدہ ہوتے ہیں) جج امریکہ کے آئین اور قوانین کے آگے جوابدہ ہوتے ہیں۔ تعیناتی کی تاحیات مدت ججوں کو ایسے فیصلے کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے جو قانونی طور پر درست مگر سیاسی لحاظ سے غیرمقبول ہوتے ہیں۔

آئین قوم کے منتخب کردہ صدر کو جج نامزد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور حکومتی برانچوں کے مابین پڑتال اور توازن قائم رکھنے کی خاطر سینیٹ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ججوں کی نامزدگیوں کی توثیق کرے۔ اس کا مقصد نامزدگان کی وسیع حمایت کو یقینی بنانا  ہوتا ہے۔

اس نظام سے اعلٰی معیار اور آزاد ججوں کی [تعیناتی کی] حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

یہ دوسرے صاحب ہیں جنہیں صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے لیے چنا ہے۔ 2017 میں صدر نے سپریم کورٹ کی ایک اسامی کو پُر کرنے کے لیے ایک تجربہ کار جج، نیل گورسچ کو نامزد کیا اور امریکی سینیٹ نے ان کی توثیق کی۔

فری لانس مصنفہ مئیو آلسپ نے اس مضمون کی تیاری میں مدد کی۔