
صدر ٹرمپ نے 30 جنوری کو سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اپنے ملک کو اور دنیا کو یہ کہتے ہوئے ایک زور دار پیغام دیا کہ جس طرح امریکی ملک میں قوت اور اعتماد دوبارہ حاصل کر رہے ہیں “ویسے ہی ہم بیرونِ ملک بھی اپنی قوت اور وقار کو بحال کر رہے ہیں۔ ”
منصفانہ تجارت سے لے کر داعش کے ساتھ جنگ، شمالی کوریا اور ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے تک، صدر نے کہا کہ امریکہ آزادی کے لیے کھڑا ہوگا اور سرکش حکومتوں، دہشت گرد گروپوں، اور اُن حریفوں کو چیلنج کرے گا جو امریکی مفادات اور اقدار کے لیے خطرہ بنیں گے۔
صدر نے یو ایس کیپیٹل [امریکی کانگریس کی عمارت] کے چیمبر میں اپنے پہلے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے لیے اکٹھے ہونے والے قانون سازوں، کابینہ کے ارکان، سپریم کورٹ کے ججوں، سفارت کاروں اور شہریوں کو بتایا، “ہمیں احساس ہے کہ کمزوری تصادم کا یقینی راستہ ہے، اور بےمثل طاقت ہمارے حقیقی اور عظیم دفاع کا یقینی ذریعہ ہے۔”
اندرونِ ملک کا اپنا لائحہ عمل پیش کرنے کے بعد صدر نے ایک ایسی جاندار خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے تصور کی بات کی جو نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ دنیا کو بھی محفوظ تر بناتی ہے۔

انہوں نے کہا، “داعش کو شکست دینے والے اتحاد نے حالیہ دنوں تک اِن قاتلوں کے زیرتسلط رہنے والے عراق اور شام کے علاقوں کو لگ بھگ سو فیصد آزاد کروا لیا ہے۔ تاہم بہت سا کام کرنا ابھی باقی ہے۔”
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر انہوں نے خوب داد سمیٹی۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ” کیونکہ ہم دنیا بھر میں اپنی دوستیاں مضبوط کر رہے ہیں لہذا ہم اپنے مخالفین سے متعلق صراحت کو بھی بحال کر رہے ہیں۔ ”
“جب ایرانی عوام اپنی بدعنوان ڈکٹیٹرشپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو میں خاموش نہیں رہا۔ امریکہ ایران کے عوام کی آزادی کی جرائتمندانہ جدوجہد میں اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔ ”
انہوں نے شمالی کوریا کے اُن جوہری میزائلوں کے اندھا دھند حصول” کو روکنے کے لیے “مکمل امریکی عزم” کا وعدہ کیا جو بہت جلد ہمارے ملک کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ کبھی بھی ایسا ہونے کو روکنے کی خاطر ہم نے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔”
جیسا کے صدر رونلڈ ریگن کے وقت سے سابقہ صدور کرتے چلے آ رہے ہیں، صدر ٹرمپ نے بھی ایسے عام شہریوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے دلیرانہ کارنامے سر انجام دیئے ہیں یا دوسروں کی زیادتیوں کی وجہ سے تکلیفیں اٹھائی ہیں جس کی تلافی کے لیے اُن کی انتظامیہ کوشش کر رہی ہے۔ اِن لوگوں میں شمالی کوریا کا ایک منحرف اور اوٹو وارمبائیر کے والدین شامل تھے۔ اوٹو وارمبائیر امریکی شہری تھے اور کالج کے طالب علم تھے۔ انہیں شمالی کوریا نے من مانے طریقے سے سزا دے کر جیل میں رکھا اور بے ہوش حالت میں امریکہ واپس بھیجا۔

بین الاقوامی تجارت پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا، “آج کے بعد، ہم منصفانہ اور سب سے اہم، برابری کی بنیاد پر دوطرفہ تجارتی تعلقات کی توقع رکھتے ہیں۔”
“ہم برے تجارتی سمجھوتوں کو بہتر بنانے پر کام کریں گے اور نئے سمجھوتوں کے لیے مذاکرات کریں گے۔”
اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا، ” جو کچھ ہم ہیں اور جس کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں، جب تک ہمیں اِس پر فخر ہے، دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم حاصل نہ کر سکیں۔”
“ہمارے خاندان پھلیں پھولیں گے۔ ہمارے لوگ خوشحال ہوں گے۔ اور ہماری قوم ہمیشہ محفوظ اور مضبوط اور فخر مند اور طاقتور اور آزاد رہے گی۔”