Donald Trump holding up a proclamation (© Evan Vucci/AP Images)
صدر ٹرمپ وہ یاد داشت دکھا رہے ہیں جس پر انہوں نے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی خاطر دستخط کیے ہیں۔ (© Evan Vucci/AP Images)

صدر ٹرمپ نے 8 مئی کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کی شرکت یہ کہتے ہوئے ختم کر دی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ معاہدہ دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے سرکردہ ملک کو “دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار حاصل کرنے کے انتہائی قریب لے جاتا۔”

صدر نے کہا، “یہ ایک ایسا تباہ کن، یکطرفہ معاہدہ تھا جسے کبھی بھی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ امریکہ کو جوہری بلیک میل کے ذریعے یرغمال نہیں بنایا جا سکے گا۔”

ٹرمپ نے ایرانی حکومت اور ایرانی معیشت کے اہم ترین شعبوں پر سخت ترین پابندیاں دوبارہ عائد کر دی ہیں۔ انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا، “جو بھی ملک ایران کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں مدد کرے گا امریکہ اُس پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دے گا۔”

صدر نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی “خطرے کے ادراک اور ہمارے اس یقین سے متفق ہیں کہ ایران کو کسی صورت میں بھی جوہری ہتھیار نہیں حاصل کرنے دینا چاہیے۔”

انہوں نے ایران کے رہنماؤں کو “ایک نئے اور پائیدار معاہدے” پر دوبارہ مذاکرات کرنے کی دعوت دی ہے۔

“ایران کے مستقبل کے مالک ایرانی عوام ہیں۔ … وہ ایک ایسے ملک کے مستحق ہیں جو ان کے خوابوں سے انصاف کرے، اُن کی تاریخ اور خدا کی شان کا احترام کرے۔” ~ صدر ٹرمپ

امریکہ، دنیا کی پانچ دیگر طاقتوں اور یورپی یونین نے تہران کی حکومت کے ساتھ جولائی 2015 میں پندرہ سال تک ایران کی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کرنے کی اہلیت کو محدود کرنے کی خاطر ایک معاہدہ کیا تھا۔

ایران نے پابندیاں ختم کرنے کے بدلے اپنے جوہری ایندھن کی ایک بڑی مقدار ملک سے باہر بھجوانے اور معائنوں کی اجازت دینے پر اتفاق کیا۔ صدر ٹرمپ معائنوں کو نامکمل قرار دے چکے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں توانائی، پیٹروکیمیکل اور مالی شعبوں جیسے ایرانی معیشت کے انتہائی اہم شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِن پابندیوں کے تحت ایران میں تجارت کرنے والوں کو ایران میں اپنی سرگرمیاں یا کاروبار ختم کرنے کے لیے وقت دیا گیا ہے۔

اِن پابندیوں کے مطابق ایران کے کبھی بھی جوہری ہتھیار نہ حاصل کرنے کے علاوہ، ایرانی حکومت کو مندرجہ ذیل اقدامات ہرصورت میں اٹھانا ہوں گے:

  • جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل میزائلوں کی تیاری کبھی نہ کرنا اور بیلسٹک میزائلوں کے پھیلاؤ کو روکنا۔
  • دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور اپنےعلاقائی کارندہ گروہوں کی مدد کا خاتمہ کرنا۔
  • اسرائیل کو تباہ کرنے کی اپنی کھلم کھلا کوششوں کو ختم کرنا۔
  • خلیج فارس اور بحراحمر میں آزادانہ جہاز رانی کے خلاف دھمکیاں دینا بند کرنا۔
  • یمنی جنگ کو ہوا دینا اور حوتیوں کو مسلح کرنا بند کرنا۔
  • امریکہ، اسرائیل اور دیگر اتحادیوں پر سائبر حملے بند کرنا۔

وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں اسد کی حکومت، یمن کے حوتی باغیوں، لبنان کے حزب اللہ، اور عراق کے جنگجو شیعہ گروہوں اور دہشت گردوں کی حمایت سمیت ایران پر لازم ہے کہ وہ اپنی “ضرر رساں سرگرمیاں” بند کرے۔

صدر نے کہا کہ وہ ایک ایسا نیا اور پائیدار سمجھوتہ کرنے کے لیے “تیار، آمادہ اور اہل ہیں” جس سے پورے ایران کو فائدہ ہوگا اور جو مشرق وسطٰی میں امن اور استحکام لے کر آئے گا۔ انہوں نے کہا، “مصائب، موت اور تباہی کی انتہا ہو چکی ہے۔ آئیے انہیں ختم کریں۔”