صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ ( درمیان میں) وائٹ ہاؤس میں ہونے والے امریکی ٹکنالوجی کونسل کے پہلے اجلاس میں، ایپل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ٹِم کُک (بائیں) اور مائیکروسافٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ستیا نادیلا ( دائیں) کے ہمراہ۔ (© AP Images)

صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ٹکنالوجی کی امریکی کونسل کے آغاز میں مدد کی خاطر، ایپل، ایمیزون اور گوگل جیسی بڑی کمپنیوں کے لیڈروں کو 19 جون کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا۔

حکومت کے ٹکنالوجی کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے کی اپنی کوششوں کے سلسلے میں نجی شعبے کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے، صدر نے مئی میں یہ کونسل قائم کی تھی۔

ٹرمپ نے کونسل کو بتایا، “ہمارا مقصد وفاقی حکومت کی ٹکنالوجی میں ایک ایسی بنیادی تبدیلی کی راہنمائی کرنا ہے جو شہریوں کو ڈرامائی طور پر بہتر سہولتیں فراہم کرسکے گی۔

Steve Mnuchin seated with Julie Sweet (center) and Safra Catz (right) (© AP Images)
وزیر خزانہ، سٹیومنوچن (بائیں)، اکسینچر کی شمالی امریکہ کی چیف ایگزیکٹو آفیسسر، جولی سویٹ اور اوریکل کی شریک چیف ایگزیکٹو آفیسر، سفرا کاٹز (دائیں) کے ہمراہ۔ (© AP Images)

کونسل کے اِس پہلے اجلاس میں سرکاری حکام، ٹکنالوجی کی چوٹی کی کمپنیوں کے سی ای اوز اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے صدور نے شرکت کی اور اِس کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کے “ہفتہِ ٹکنالوجی” کا آغاز بھی ہو گیا۔

صدر نے 10 سالوں کے دوران لاگتوں میں ہونے والی ایک کھرب ڈالر کے برابر بچت کا تخمینہ لگاتے ہوئے کہا، “ہم ایک بڑی تبدیلی، جرائتمندانہ سوچ، اور حکومت میں تبدیلی لانے کے ایک غیرحکومتی نقطہِ نظر کو اپنا رہے ہیں اور اسے [حکومت کو] ایسا بنا رہے ہیں جیسا کہ اِس کو ہونا چاہیے، اور بہت ہی کم قیمت پر۔”

صدر نے وفاقی حکومت کو بہتر بنانے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کے مشیرِ اعلٰی، جیرڈ کُشنر کی سربراہی میں امریکی اختراعات کا دفتر بھی قائم کیا ہے۔

کونسل کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کُشنر نے کہا، “مجموعی طور پر وفاقی ادارے 6,100  ڈیٹا سنٹر چلاتے ہیں۔ اِن کی ایک بڑی تعداد کو یکجا کرکے کلاؤڈ پر منتقل کیا جا سکتا ہے اور ہم سب مل کر شہریوں کو ایک ایسے طریقے سے خدمات فراہم کرنے کی خاطر نجی شعبے کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔”

اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ٹکنالوجی کے لیڈروں میں ماسٹر کارڈ کے اجے بنگا، انٹیل کے برائن کرزانِچ، مائیکروسافٹ کے ستیا نادیلا اور آئی بی ایم کے جنی رومیٹی شامل تھے۔

صدر نے کہا، “حکومت کو ٹکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ قدم ملانے کی ضرورت ہے۔ ہم عظیم امریکی کاروباروں کی مدد سے اِس کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔”