صدر ٹرمپ نے 5 فروری کو کپیٹل ہل پر کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس سے اپنا دوسرا سٹیٹ آف دی یونین خطاب کیا۔ ذیل میں اس خطاب سے اقتباسات دیئے جا رہے ہیں:
محترمہ سپیکر، جناب نائب صدر، ارکان کانگریس، امریکی خاتون اول اور میرے امریکی ہموطنو:
آج رات ہم لامحدود امکانات کے لمحے میں ایک ساتھ ہیں۔ نئی کانگریس کے آغاز پر میں تمام امریکیوں کے لیے تاریخی کامیابیوں کے حصول کی خاطر آپ کے ساتھ یہاں کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
* * * *
میری انتظامیہ نے جنوبی سرحد پر بحران کے خاتمے کے لیے کانگریس کو ایک عام فہم تجویز بھیجی ہے۔
اس میں انسانی امداد، قانون کا مزید نفاذ، ہماری بندرگاہوں پر منشیات کا سراغ لگانا، بچوں کی سمگلنگ کا سبب بننے والے سقم ختم کرنا اور نئی طبعی رکاوٹ یا دیوار کے منصوبے شامل ہیں جن کا مقصد ہمارے ملک کے داخلی راستوں کے درمیان وسیع علاقوں کو محفوظ بنانا ہے۔
* * * *
میری انتظامیہ میں امریکی مفادات کے فروغ پر کبھی معذرت نہیں کی جائے گی۔ مثال کے طور پر دہائیوں پہلے امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں ہم نے اپنی میزائل کی صلاحیتوں کو محدود اور کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ہم نے اس معاہدے اور اس کے ضوابط کی مکمل طور پر پاسداری کی جبکہ روس تواتر سے اس معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتا رہا۔ ایسا کئی سال سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اسی لیے میں نے اعلان کیا کہ امریکہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں کے معاہدے یا ‘آئی این ایف’ معاہدے سے سرکاری طور پر دستبردار ہو رہا ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
ایک نئی اور بے باک سفارت کاری کے ذریعے ہم جزیرہ نما کوریا میں امن کے لیے اپنا تاریخی دباؤ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے یرغمالی واپس آ چکے ہیں، جوہری تجربات بند ہو چکے ہیں اور 15 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور کوئی میزائل نہیں داغا گیا۔ اگر میں امریکہ کا صدر منتخب نہ ہوا ہوتا تو میری رائے کے مطابق اس وقت ہم شمالی کوریا کے ساتھ ایک بڑی جنگ لڑ رہے ہوتے۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے مگر کم جونگ ان کے ساتھ میرا اچھا تعلق ہے۔ چیئرمین کم اور میں 27 اور 28 فروری کو ویت نام میں دوبارہ ملیں گے۔
دو ہفتے قبل امریکہ نے وینزویلا کی قانونی حکومت اور اس کے نئے صدر خوان گوائیڈو کو سرکاری طور پر تسلیم کیا۔
ہم آزادی کی اس عظیم جدوجہد میں وینزویلا کے عوام کے ساتھ ہیں اور مادورو حکومت کے ظالمانہ طرزعمل کی مذمت کرتے ہیں جس کی اشتراکی پالیسیوں نے وینزویلا کو جنوبی امریکہ کے دولت مند ترین ملک سے اٹھا کر انتہائی غربت اور مایوسی میں پھینک دیا ہے۔
* * * *
ہمیں سالہا سال سے مشرق وسطیٰ میں پیچیدہ ترین مسائل کے ایک مجموعے کا سامنا ہے۔
عرصہ دراز سے ہمارا طرزعمل کسی بھی پیش رفت میں ناکام رہنے والے غیرمعتبر نظریات پر نہیں بلکہ اصولی حقیقت پسندی پر استوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری انتظامیہ نے اسرائیل کے حقیقی دارالحکومت کو تسلیم کیا اور فاخرانہ طور پر یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولا۔
جب میں نے عہدہ سنبھالا تو داعش نے عراق اور شام میں 20,000 مربع میل سے زیادہ علاقے پر اپنا تسلط جما رکھا تھا۔ یہ محض دو سال پہلے کی بات ہے۔ آج ہم نے حقیقتاً یہ تمام علاقہ خون کی پیاسی اِن عفریتوں کی گرفت سے آزاد کرا لیا ہے۔
* * * *
میری انتظامیہ نے دنیا میں ریاستی دہشت گردی کی سب سے بڑی سرپرست حکومت کا سامنا کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھائے ہیں: یعنی ایران کی بنیاد پرست حکومت کے خلاف۔ یہ ایک بنیاد پرست حکومت ہے۔ یہ بہت برے برے کام کرتے ہیں۔
اس بدعنوان آمریت کو ہمیشہ کے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے میں نے امریکہ کو تباہ کن ایرانی جوہری معاہدے سے نکالا۔ گزشتہ سال کے آخر میں ہم نے ایران پر سخت ترین پابندیاں لگائیں جو قبل ازیں ہم نے کبھی کسی اور ملک پر عائد نہیں کیں۔
ہم ایسی حکومت سے اپنی نظریں نہیں ہٹائیں گے جو امریکہ کے لیے موت کے نعرے لگاتی ہے اور یہودیوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دیتی ہے۔ ہمیں یہودی مخالفت کے نفرت انگیز زہر یا اس زہریلے نظریے کے پرچارکوں کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بیک آواز کسی بھی جگہ اور ہر جگہ رونما ہونے والی نفرت کا ہرصورت میں مقابلہ کرنا چاہیے۔