صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی عرب-اسلامی- امریکی سربراہ کانفرنس میں تقریر

صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ  کی عرب-اسلامی- امریکی سربراہ کانفرنس میں تقریر

ریاض، سعودی عرب

21 مئی 2017

شکریہ میں شاہ سلمان کے غیر معمولی الفاظ کے لیے اور آج کی کانفرنس کا انعقاد کرنے پر سعودی عرب کی شاندار سلطنت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں انتہائی خوش خلق میزبانوں کی جانب سے استقبال کیے جانے کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کے ملک کی شان و شوکت اور آپ کے شہریوں کی رحمدلی کے بارے میں سنتا رہتا ہوں مگر الفاظ اِس شاندار ملک  اور آپ نے ہماری یہاں آمد کے بعد جس ناقابل یقین مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے اُس کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے۔

آپ نے سلطنت کے بانی اور آپ کی عظیم قوم کو متحد کرنے والے، شاہ عبدالعزیز کے گھر میں بھی میری میزبانی کی۔ ایک اور محبوب لیڈر، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے، شاہ عبدالعزیز نے ہمارے دونوں ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری کا آغاز کیا۔  شاہ سلمان: آپ کے والد اِس ورثے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ  کر فخر محسوس کریں گے۔ جیسے اُنہوں نے ہماری اِس شراکت داری کے پہلے باب کا آغاز کیا تھا، آج ہم بھی ایک ایسے نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں جس ہمارے عوام کو دور رس فوائد حاصل ہوں گے۔

میں آج یہاں پر تشریف لانے والے ممتاز سربراہانِ مملکت میں سے ہر ایک کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے اپنی تشریف آوری سے ہماری عزت افزائی فرمائی اور میں اپنے ملک کی جانب سے آپ کے ممالک کو پُرجوش سلام پیش کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارا یہاں اکٹھا بیٹھنا ہم دونوں یعنی آپ کے عوام اور ہمارے عوام کے لیے بہت سی برکتیں لے کر آئے گا۔

دوستی اور امید کا پیغام پہنچانے کی خاطر، میں آپ کے سامنے امریکی عوام کے ایک نمائندے کی حیثیت سے کھڑا ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر مسلم دنیا کے قلب کی حیثیت رکھنے والے ملک اور ایسی قوم کا انتخاب کیا ہے جو دینِ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کے خادم کے طور پر خدمات سرانجام دیتی ہے۔

امریکی عوام سے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران میں نے امریکہ کی قدیم ترین دوستیوں اور امن کی تلاش میں نئی شراکت داریوں کی تعمیر کا عہد کیا تھا۔ میں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ امریکہ دوسروں پر اپنا طرزِ زندگی مسلط نہیں کرے گا بلکہ تعاون اور اعتماد کے جذبے کے تحت اپنا ہاتھ  آگے بڑہائے گا۔

اِس خطے اور دنیا میں — ہمارا ایک ہی نظریہ ہے اور وہ ہے امن، سلامتی، اور خوشحالی کا۔

ہماری منزل، اقوام کا ایک ایسا اتحاد ہے جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ہمارے بچوں کو ایک ایسا پُرامید مستقبل فراہم کرنے کی غرض سے ہمارے ساتھ شامل ہو جس میں خدا کی لازمی طور پر تکریم کی جاتی ہو۔

لہذا قوموں کی تاریخ میں لیڈروں کا یہ منفرد، تاریخی اور بےمثال اجتماع، ہمارے مشترکہ عزم اور باہمی احترام کی حامل ہماری دنیا کی ایک علامت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں پر جمع ہونے والے ہر ملک کے لیڈروں اور شہریوں کو علم ہو کہ امریکہ دوستی، سلامتی، ثقافت اور تجارت کے قریبی بندھن پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔

امریکیوں کے لیے یہ ایک ولولہ انگیز وقت ہے۔ پُرامیدی کے ایک نئے جذبے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے: چند مہینوں میں ہم نے  لگ بھگ دس لاکھ ملازمتیں پیدا کی ہیں، تین کھرب ڈالر مالیت کی نئی قدر کا اضافہ کیا ہے، امریکی تجارت سے بوجھ ہٹایا ہے اور اپنی افواج پر ایسی ریکارڈ سرمایہ کاریاں کی ہیں جو ہمارے عوام کی حفاظت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ  ہمارے اُن بہت سے زبردست دوستوں اور اتحادیوں کے تحفظ کو بھی بڑہائیں گی جن میں سے بہت سے آج یہاں موجود ہیں۔

اب میں آپ کو اس سے بھی زیادہ مبارک خبر سنانا چاہتا ہوں۔ شاہ سلمان، ولی عہد شہزادے، اور نائب ولی عہد شہزادے کے ساتھ میری ملاقاتیں عظیم گرمجوشی، خیرسگالی اور شاندار تعاون سے بھرپور تھیں۔ گزشتہ روز ہم نے سعودی سلطنت کے ساتھ اُن تاریخی سمجھوتوں پر دستخط کیے جن کے تحت ہمارے دونوں ممالک میں تقریباً 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور جس سے امریکہ اور سعودی عرب میں ملازمتوں کے ہزارہا مواقع پیدا ہوں گے۔

اِس تاریخی سمجھوتے میں سعودی مالی وسائل سے 110 ارب ڈالر کی دفاعی خریداری کا اعلان بھی شامل ہے – اور امریکہ کی عظیم دفاعی کمپنیوں سے اچھے سودے کرنے میں ہم، اپنے سعودی دوستوں کی مدد کرنے کو یقینی بنائیں گے۔ اِس سمجھوتے سے سعودی افواج کو سکیورٹی کی کاروائیوں میں بڑا کردار ادا کرنے میں مدد ملے گی۔

پورے مشرقِ وسطٰی اور اس کے علاوہ دوسرے علاقوں میں، سلامتی اور استحکام کے فروغ کی خاطر، ہم نے یہاں پر موجود بہت سے ممالک کے ساتھ  پہلے سے موجود شراکت داریوں کو مضبوط کرنے اور نئی شراکت داریاں تشکیل دینے کے لیے بات چیت کا آغاز بھی کیا ہے۔

بعد ازاں، آج ہم ‘انتہاپسند نظریے کا مقابلہ کرنے کے عالمی مرکز’ کا افتتاح کر کے نئی تاریخ رقم کریں گے– یہ مرکز یہاں قائم ہوگا جو کہ اسلامی دنیا کا مرکز ہے۔

یہ جدید اور نیا مرکز اس امر کا واضح اعلان ہے کہ مسلم اکثریت  والے ممالک کو بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کی قیادت کرنا چاہیے اور میں قیادت کے اس طاقت ور مظاہرے پر شاہ سلمان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

مجھے یہاں پر موجود کئی ایک لیڈروں کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کرنے کا پُرمسرت موقع ملا ہے اور میں آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔

امریکہ ایک خودمختار ملک ہے اور ہمیشہ ہماری اولین ترجیح اپنے شہریوں کا تحفظ اور سلامتی ہوتی ہے۔ ہم یہاں لیکچر دینے نہیں آئے — ہم یہاں دوسرے لوگوں کو یہ بتانے نہیں آئے کہ کیسے زندگی گزارنا ہے، کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے یا کیسے عبادت کرنا ہے۔ اس کی بجائے ہم یہاں، مشترکہ مفادات اور اقدار کی بنیاد پر سب کے لیے ایک بہتر مستقبل کے حصول کی خاطر، شراکت داری کی پیش کش کرنے آئے ہیں۔

اِس سربراہی کانفرنس میں ہم اپنے بہت سے مشترکہ مفادات پر تبادلہِ خیالات کریں گے۔ لیکن سب سے بڑھکر ہمارا اُس ایک مقصد کے حصول کی خاطر متحد ہونا اشد ضروری ہے جو دوسری تمام سوچوں سے بالاتر ہے۔ یہ مقصد تاریخ کے سب سے بڑے امتحان سے گزرنا ہے— یعنی انتہا پسندی پر فتح حاصل کرنا اور دہشت گرد قوتوں کو نیست ونابود کرنا ہے۔

نوجوان لڑکے لڑکیوں کو خوف سے آزاد، تشدد سے محفوظ اور نفرت سے پاک رہتے ہوئے پروان چڑھنا چاہیے۔ اور نوجوان مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس اُن کے اپنے لیے اور اُن کے لوگوں کے لیے خوشحالی کے ایک نئے دور کی تعمیر کی خاطر تبدیلی کا کوئی موقع ہونا چاہیے۔

خدا کی مدد سے یہ سربراہی کانفرنس اُن کے خاتمے کا آغاز ثابت ہوگی جو دہشت گردی پر عمل کرتے ہیں اور اپنا مکروہ عقیدہ پھیلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم دعا گو ہیں کہ ایک دن اس خصوصی اجتماع کو مشرقِ وسطٰی میں امن کے آغاز کے طور پر یاد کیا جائے – اور ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر کے [امن] طور بھی یاد کیا جائے۔

مگر یہ مستقبل صرف دہشت گردی اور اِس کے پیچھے متحرک نظریے کو شکست دینے کی صورت میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

بہت کم اقوام اِس کی متشدد پہنچ سے محفوظ  رہی ہیں۔

امریکہ کو باربار اِن وحشیانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے — 11 ستمبر کے مظالم سے لے کر بوسٹن کی تباہ کن بمباری اور سین برنیڈینو اور اورلینڈو کی خوفناک ہلاکتوں تک۔

یورپی اقوام نے بھی اس ناقابلِ بیان وحشت کو برداشت کیا ہے۔ اسی طرح افریقہ اور جنوبی امریکہ کی اقوام نے بھی۔ بھارت، روس، چین اور آسٹریلیا بھی اس کا شکار رہے ہیں۔

مگر، اس کی مہلک ترین زد عرب، مسلمان اور مشرقِ وسطٰی کے ممالک کے معصوم لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر پڑی ہے۔ انہوں نے اِس جنونی تشدد کی لہر میں ہلاکتوں کی ایک بڑی تعداد اور بدترین تباہی کا سامنا کیا ہے۔

بعض تخمینوں کے مطابق، دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا 95 فیصد، بذات خود مسلمان ہیں۔

اب ہمیں اِس خطے میں ایک ایسی انسانی اور سلامتی کی تباہی کا سامنا ہے جو پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اِس المیے کا تناسب غیرمعمولی ہے۔ مصیبت اور سیاہ کاری کے بیان کے کسی بھی پیمانے  کے ذریعے اِس کا مکمل ادراک نہیں کیا جاسکتا۔

داعش، القاعدہ، حزب اللہ، حماس اور بہت سے دوسروں کا شکار ہونے والوں کی حقیقی تعداد کو مرنے والوں کے حوالے سے ہرگز نہیں شمار کرنا چاہیے۔ ان کی گنتی خوابوں کی مِٹ جانے والی نسلوں کے حوالے سے بھی کرنا چاہیے۔

مشرقِ وسطٰی قدرتی خوبصورتی، متحرک ثقافتوں، اور تاریخی خزانوں کی ایک بہت بڑی دولت سے مالامال ہے۔ اِس کو تیزی سے دنیا کے تجارت اور مواقعوں کے مراکز میں سے ایک مرکز بن جانا چاہیے۔

یہ ایسا خطہ نہیں ہونا چاہیے جہاں سے پناہ گزین بھاگیں بلکہ یہ ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں لوگ جوق در جوق آئیں۔

سعودی عرب میں دنیا کے عظیم عقیدوں میں سے ایک عقیدے کے مقدس ترین مقامات موجود ہیں۔ ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگ حج کرنے سعودی عرب آتے ہیں۔ قدیم عجائبات کے علاوہ، یہ ملک فنِ تعمیر کی عالیشان کامیابیوں سمیت جدید عجائبات کا ملک بھی ہے۔

دنیا کے دوسرے حصوں سے ہزاروں سال پہلے، مصر علم اور کامیابی کا ایک پھلتا پھولتا مرکز تھا۔ گیزہ، لکسر اور الیگزینڈریا کے عجائبات اِس قدیم ورثے کی مشہور یادگاریں ہیں۔

پوری دنیا میں لوگ اردن میں پیٹرہ کے کھنڈرات میں چلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ عراق تہذیب کا گہوارہ تھا اور قدرتی حسن کی سرزمین ہے۔ اور متحدہ عرب امارات شیشے اور فولاد سے ناقابلِ یقین بلندیوں تک پہنچ چکا ہے اور اِس نے زمین اور پانی کو آرٹ کے شاندار شاہکاروں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔

سارا خطہ نہر سویز، بحیرہ احمر اور آبنائے ہرمز کے کلیدی آبی راستوں کے مرکز میں واقع ہے۔ اِس علاقے میں جتنے امکانات آج موجود ہیں اتنے زیادہ پہلے کبھی بھی نہیں رہے۔ اس کی 65 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ تمام نوجوان مردوں اور عورتوں کی طرح، وہ بھی عظیم مستقبل کی تعمیر، عظیم قومی منصوبوں میں شامل ہونے اور اپنے گھرانوں کے لیے ایسی جگہ کے متلاشی ہیں جسے گھر کہتے ہیں۔

خون خرابہ اور دہشت، استعمال میں نہ لائی جانے والی اِن صلاحیتوں اور پُرامیدی کی اِس زبردست بنیاد کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ اِس تشدد کے ساتھ بقائے باہمی کا وجود قائم نہیں رہ سکتا۔ اسے [تشدد کو] قطعاً برداشت نہیں کیا جا سکتا، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا، اس سے درگزر نہیں کیا جا سکتا اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہر مرتبہ جب کوئی دہشت گرد کسی معصوم شخص کو قتل کرتا ہے اور جھوٹے طور پر خدا کا نام لیتا ہے تو یہ مذہب کے ماننے والے ہر شخص کی ہتک ہوتی ہے۔

دہشت گرد خدا کی عبادت نہیں کرتے۔ وہ موت کی عبادت کرتے ہیں۔

اگرہم اِس منظم دہشت کے خلاف حرکت میں نہیں آئیں گے تو پھر ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ دہشت گردی کے ذریعے زندگی کی تباہی کا پھیلنا جاری رہے گا۔ پرامن معاشرے تشدد کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اور کئی نسلوں کے مستقبل افسوسناک طریقے سے ضائع ہو جائیں گے۔

اگر ہم اس ہلاکت کی یکساں مذمت کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے — پھر صرف ہمارے لوگ ہی ہمارے بارے میں فیصلہ نہیں کریں گے، تاریخ ہی ہمارے بارے میں فیصلہ نہیں کرے گی، بلکہ خدا بھی ہمارے بارے میں فیصلہ کرے گا۔

یہ مختلف مذاہب، مختلف فرقوں یا مختلف تہذیبوں کے درمیان جنگ نہیں ہے۔

یہ لڑائی وحشی مجرموں اور تمام مذاہب کے ماننے والے اُن مہذب لوگوں کے درمیان ہے جو انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔ اِن مجرموں کا مقصد انسانی زندگی اور مہذب لوگوں کو مٹانا ہے۔

یہ نیکی اور بدی کے درمیان لڑائی ہے۔

جب ہم دہشت کے بعد تباہی کے مناظر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایسی کوئی علامت نہیں ملتی کہ قتل ہونے والے یہودی تھے یا عیسائی، شیعہ تھے یا سنی۔ جب ہم معصوم خون کی ندیوں میں ڈوبی قدیم زمین کو دیکھتے ہیں تو ہم مرنے والوں کا مذہب یا فرقہ یا قبیلہ نہیں دیکھ سکتے – ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خدا کے بچے تھے جن کی اموات ہراُس چیز کی ہتک ہے جو مقدس ہے۔

مگر اِس بدی پر ہم صرف اُس وقت غالب آ سکتے ہیں جب نیکی کی قوتیں متحد اور مضبوط ہوں – یعنی اگر اس کمرے میں موجود ہر ایک اپنے جائز حصے کا کام پورا کرے اور اپنے حصے کی  ذمہ داری کا بوجھ  برداشت کرے۔

دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ مگر امن کی راہ عین یہاں سے، اس قدیم سرزمین سے، اس مقدس دھرتی سے شروع ہوتی ہے۔

امریکہ مشترکہ مفادات اور مشترکہ سلامتی کے حصول کے لیے آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے۔

لیکن اُن کی خاطر اِس دشمن کو کچلنے کے لیے، مشرقِ وسطٰی کی اقوام امریکی طاقت کا انتظار نہیں کر سکتیں۔ مشرق وسطٰی کی اقوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے لیے، اپنے ممالک کے لیے، اور اپنے بچوں کے لیے کس قسم کا مستقبل چاہتی ہیں۔

یہ دو مستقبلوں میں سے ایک کا انتخاب ہے – اور یہ ایک ایسا انتخاب ہے جو آپ کے لیے امریکہ نہیں کر سکتا۔

ایک بہتر مستقبل صرف اُسی صورت میں ممکن ہے اگر آپ کی اقوام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو نکال دیں۔ انہیں نکال دیں۔

انہیں اپنی عبادت گاہوں سے نکال دیں۔

انہیں اپنی کمیونٹیوں سے نکال دیں۔

انہیں اپنی مقدس سرزمین سے نکال دیں، اور

انہیں اِس زمین سے نکال دیں۔

اپنے حصے کے طور پر، امریکہ ابھرتے ہوئے خطرات اور نئے حقائق کے حساب سے اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لانے کے لیے پُرعزم ہے۔ ہم اُن حکمت عملیوں کو ترک کر دیں گے جو کامیاب نہیں ہوئیں — اور ہم تجربے اور فیصلوں کی روشنی میں تیار کی گئی حکمت عملیوں کو نافذ کریں گے۔ ہم مشترکہ اقدار اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ایک اصولی حقیقت پسندی اختیار کر رہے ہیں۔

ہمارے دوست ہماری حمایت پر کبھی انگلی نہیں اٹھائیں گے اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے عزمِ مصمم پر کبھی شک نہیں ہوگا۔ ہماری شراکت داری، بنیادی انتشار کے ذریعے نہیں بلکہ استحکام کے ذریعے سلامتی کو پروان چڑہائے گی۔ ہم حقیقی دنیا کے نتائج کی بنیاد پر فیصلے کریں گے – نہ کہ غیر لچکدار نظریے کی بنیاد پر۔ ہم تجربے سے سیکھے گئے اسباق سے راہنمائی حاصل کریں گے نہ کہ سخت گیر سوچ کی حدود کی پابندیوں سے۔ اور جہاں کہیں ممکن ہوا ہم بتدریج اصلاحات کی کوشش کریں گے – نہ کہ اچانک مداخلت کی۔

ہمیں شراکت داروں کو تلاش کرنا چاہیے نہ کہ کاملیت کو — اور اُن سب کو اتحادی بنانا چاہیے جو ہمارے مقاصد سے اتفاق کرتے ہیں۔

سب سے بڑھکر یہ کہ امریکہ امن کے لیے کوشاں ہے – نہ کہ جنگ کے لیے۔

اگر ہمیں دہشت گردی کو شکست دینا ہے اور اِس کے فاسد نظریے کو گمنامیوں میں دھکیلنا ہے تو مسلمان اقوام کو بوجھ برداشت کرنے کے لیے لازماً آمادہ ہونا چاہیے۔

اس مشترکہ کوشش میں آپ کی اقوام کا پہلا کام بدی کے کارندوں کو تمام علاقوں سے بیدخل کرنا ہے۔ اِس خطے کے ہر ملک کا یہ قطعی فرض بنتا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ دہشت گردوں کو اُس کی سرزمین پر کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے۔

بہت سے ممالک پہلے سے ہی خطے کی سلامتی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں: اردنی پائلٹ شام اور عراق میں داعش کے خلاف انتہائی اہم شراکت دار ہیں۔ سعودی عرب اور ایک علاقائی اتحاد نے یمن میں حوتی عسکریت پسندوں کے خلاف مضبوط  کاروائی کی ہے۔ لبنانی فوج اُن کے ملک میں دراندازی کی کوشش کرنے والے داعش کے کارندوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ اماراتی دستے ہمارے افغان شراکت  داروں کی مدد کر رہے ہیں۔ موصل میں، امریکی دستے اپنے وطن کی خاطر مل کر لڑنے والے کردوں، سنیوں، اور شیعوں کی مدد کر رہے ہیں۔ امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کی میزبانی کرنے والا قطر، ایک انتہائی اہم تزویراتی شراکت دار ہے۔ کویت اور بحرین کے ساتھ ہماری طویل شراکت داری خطے کی سلامتی کو مسلسل بڑہا رہی ہے۔ اور اپنے ملک کی خاطر جنگ میں طالبان اور دوسروں کے خلاف لڑتے ہوئے، باہمت افغان سپاہی شاندار قربانیاں دے رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم دہشت گرد تنظیموں کو علاقوں اور آبادیوں کے کنٹرول سے محروم کر رہے ہیں، اسی طرح ہمیں مالی وسائل تک اُن کی رسائی کو بھی روک دینا چاہیے۔ ہمیں اُن کے اُن مالی ذرائع کو ختم کر دینا چاہیے جن کے تحت داعش تیل فروخت کرتی ہے، انتہا پسندوں کو اپنے جنگجوؤں کو ادائیگیاں کرنے کے قابل بناتے ہیں اور دہشت گردوں کو اپنی کمک سمگل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

میں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ یہاں پر موجود ممالک دہشت گردی کی مالی مدد کو روکنے کے ‘ٹیررسٹ فنانسنگ ٹارگٹنگ سنٹر’ نامی ایک سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ امریکہ اور سعودی عرب اِس کے مشترکہ سربراہ ہوں گے اور خلیجی تعاون کی کونسل کے تمام ارکان اِس میں شامل ہوں گے۔ ایک ایسے دن یہ مزید ایک اور تاریخی قدم ہے جسے طویل مدت تک یاد رکھا جائے گا۔

میں خلیجی تعاون کی کونسل کی بھی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے مالی مدد کرنے والوں کو اپنے ممالک کو دہشت گردی کے لیے مالی مراکز کے طور پر استعمال کرنے سے روکا اور گزشتہ سال حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔  سعودی عرب اس ہفتے حزب اللہ کے سینیئر راہنماؤں میں سے ایک پر، پابندیاں عائد کرنے میں ہمارے ساتھ شامل ہوا۔

بلا شبہ ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔

اس کا مطلب  اسلامی انتہا پسندی اور اس سے تحریک پانے والے اسلامی دہشت پسند گروہوں کے بحران کا ایمانداری سے سامنا کرنا ہے۔ اور اس کا مطلب معصوم مسلمانوں کے قتل، عورتوں کے جبروتشدد، یہودیوں کے ظلم و ستم اور عیسائیوں کی قتل و غارت کے خلاف ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے۔

مذہبی راہنماؤں کو یہ باتیں بالکل واضح کرنا چاہیے کہ بربریت سے آپ کو عظمت حاصل نہیں ہوگی – بدی کی راہ سے تقدس حاصل کرنے سے آپ کو احترام نہیں ملے گا۔ اگر آپ دہشت کی راہ کا انتخاب کریں گے تو آپ کی زندگی خالی ہوگی، آپ کی زندگی مختصر ہوگی، اور آپ کی روح کو سزا ملے گی۔

اور سیاسی راہنماؤں کو بھی اِس نظریے کی تائید میں بولنا چاہیےکہ ہیروز معصوم لوگوں کو ہلاک نہیں کرتے بلکہ وہ اُنہیں بچاتے ہیں۔ یہاں پر موجود بہت سے ممالک نے اِس پیغام کو عام کرنے کی خاطر اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ سعودی عرب کا 2030 ء کا تصور رواداری، احترام، عورتوں کی با اختیاری، اور اقتصادی ترقی کا ایک اہم اور حوصلہ افزا اظہار ہے۔

متحدہ عرب امارات  بھی ‘ دل اور روح ‘ جیتنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ امریکہ کے ساتھ مل کر، متحدہ عرب امارات نے آن لائن نفرت پھیلانے کو روکنے کے لیے ایک مرکز قائم کیا ہے۔ بحرین بھی دہشت گردوں کی بھرتی اور  بنیاد پرستی کو روکنے پر کام کر رہا ہے۔

میں اردن، ترکی اور لبنان کی بھی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے پر تعریف کرتا ہوں۔ مشرق وسطٰی چھوڑ کر جانے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی تعداد میں ہونے والا اضافہ، مستحکم معاشروں اور معیشتوں کے لیے درکار انسانی سرمائے کو ختم کرتا جا رہا ہے۔ اتنی زیادہ انسانی صلاحیتوں سے اس خطے کو محروم کرنے کی بجائے، مشرق وسطٰی نوجوانوں کو اپنے اپنے ممالک اور علاقوں میں ایک بہتر اور روشن مستقبل  کی امید دلا سکتا ہے۔

اس کا مطلب عورتوں، بچوں، اور سارے مذاہب کے ماننے والوں سمیت اُن تمام شہریوں کی امنگوں اور خوابوں کو فروغ دینا ہے جو بہتر زندگیوں کی تلاش میں ہیں۔ لاتعداد عرب اور اسلامی سکالروں نے بڑی فصاحت اور دلائل کے ساتھ بیان  کیا ہے کہ مساوات کا تحفظ، عرب اور مسلمان کمیونٹیوں کو مضبوط بناتا ہے۔

کئی صدیوں سے مشرق وسطٰی، ساتھ ساتھ  رہنے والے عیسائیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کا مسکن رہا ہے۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ  رواداری اور احترام سے کام لینا چاہیے اور اِس خطے کو ایک ایسی جگہ بنانا چاہیے  جہاں کا ہر مرد اور عورت، قطع نظر اپنے مذہب اور نسل کے، ایک باوقار اور پُر امید زندگی سے فیضیاب ہو سکے۔

اسی جذبے کے تحت تین ابراہیمی مذاہب کے بہت سے مقدس ترین مقامات کی زیارت کرتے ہوئے، میں اپنے ریاض کے دورے کے  اختتام پر یروشلم اور بیت لحم کا سفر کروں گا اور پھر ویٹی کن جاوًں گا۔ اگر تعاون کی خاطر یہ تین مذاہب اکٹھے ہو جائیں تو اِس دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو جائے گا – اور اِس میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن بھی شامل ہے۔ میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس، دونوں سے ملاقات کروں گا۔

دہشت گردوں کو اُن کے علاقے، اُن کے مالی وسائل، اور اُن کے بزدلانہ نظریے کے جھوٹے فسوں سے محروم کرنا، اُن کو شکست دینے کی بنیاد بنیں گے۔

مگر اِس خطرے کو مٹانے کی کوئی بھی بحث اُس حکومت کا ذکر کیے بغیرمکمل نہیں ہو سکتی جو دہشت گردوں کو یہ تینوں چیزیں فراہم کرتی ہے — یعنی محفوظ ٹھکانے، مالی اعانت اور بھرتی کے لیے درکار سماجی مرتبہ۔ یہ وہ حکومت ہے جو اِس خطے میں بہت سارے عدم استحکام کی ذمہ دار ہے۔ میں بلا شبہ ایران کی بات کر رہا ہوں۔

لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک، ایران اُن دہشت گردوں، ملیشیاؤں اور دوسرے انتہا پسند گروہوں کو پیسے، اسلحہ، اور تربیت فراہم کرتا ہے جو پورے خطے میں تباہی اور افراتفری پھیلاتے ہیں۔ کئی عشروں سے ایران فرقہ وارانہ تصادم اور دہشت کی آگ  بڑھکاتا چلا آ رہا ہے۔

یہ ایک ایسی حکومت ہے جو اسرائیل کی تباہی، امریکہ کی موت، اور اِس کمرے میں موجود بہت سے لیڈروں اور اُن کی قوموں کی تباہی کی قسم کھاتے ہوئے، وسیع قتل عام کی کھلم کھلا بات کرتی ہے۔

شام میں ایران کی مداخلت کا شمار ایران کی المناک ترین اور سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والی مداخلتوں میں ہوتا ہے۔ ایران سے قوت پکڑنے والے اسد نے، ناقابل بیان جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اور امریکہ نے اسد حکومت کی طرف سے ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں اُس شامی ہوائی اڈے پر59 ٹاما ہاک میزائل داغ کرٹھوس کاروائی کی ہے جہاں سے یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔

ذمہ دار اقوام کو شام میں انسانی بحران ختم کرنے، داعش کا قلع قمع کرنے اورعلاقے میں استحکام بحال کرنے کے لیے لازمی طور پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ ایرانی حکومت کی وجہ سے طویل ترین مصائب  کا شکار ہونے والے اس کے اپنے عوام ہیں۔ ایران ایک شاندار تاریخ اور ثقافت کا امین ہے۔ مگر ایرانی عوام اپنی حکومت کے تصادم اور دہشت کی راہ سوچے سمجھے بغیر اختیار کرنے کی وجہ سے  مشکلات اور مایوسی سے گزرے ہیں۔

جب تک ایرانی حکومت امن کے لیے  شراکت کاری پر آمادہ نہیں ہوتی، تب تک تمام باضمیر قوموں کو ایران کو الگ تھلگ کرنے اور دہشت گردی کے لیے اس کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے اکٹھا مل کر کام کرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ وہ دن آئے جب ایرانی عوام کو ایک ایسی انصاف پسند اور نیک حکومت ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔

ہم جو فیصلے کریں گے وہ بے شمار زندگیوں پر اثرانداز ہوں گے۔

شاہ سلمان، تاریخ میں اِن عظیم لمحات کی تخلیق اور امریکہ میں، اس کی صنعت میں اور اس کی ملازمتوں میں آپ کی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری پر، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں آپ کا دنیا کے اِس خطے کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اِس زرخیز خطے میں غیرمعمولی کامیابی کے تمام اجزائے ترکیبی پائے جاتے ہیں  –یعنی ایک شاندار تاریخ اور ثقافت، ایک نوجوان اور متحرک قوم اور کاروبار کا اُبھرتا ہوا جذبہ۔ مگر آپ اِس مستقبل کے دروازے صرف اِسی صورت میں کھول سکتے ہیں جب مشرق وسطٰی کے لوگ انتہاپسندی، دہشت اور تشدد سے آزاد ہو جائیں۔

ہم سب جو اس کمرے میں موجود ہیں اپنی اپنی اقوام کے لیڈر ہیں۔ وہ جوابات اور عمل کے لیے ہماری طرف دیکھتے ہیں۔ اور ہم جب پلٹ کر اُن کے چہروں کی طرف دیکھتے ہیں تو اُن کی آنکھوں کے پیچھے ایک ایسی روح ہے جو انصاف کے لیے بے چین ہے۔

آج، اربوں چہرے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ہمارے وقت کے عظیم سوال پر ہمارے کاروائی کرنے کے منتظر ہیں۔

کیا ہم برائی کی موجودگی سے لاتعلق رہیں گے؟ کیا ہم اپنے شہریوں کو اِس کے پرتشدد نظریے سے محفوظ رکھیں گے؟ کیا ہم اس کے زہر کو اپنے معاشروں میں پھیلنے دیں گے؟ کیا ہم اسے کرہ ارض پر واقع مقدس ترین مقامات کو تباہ کرنے کی اجازت دیں گے؟ اگر ہم اِس ہولناک دہشت کا سامنا نہیں کریں گے تو ہمیں علم ہے کے مستقبل ہمارے لیے کیا لے کر آئے گا — مزید مصائب اور مایوسی۔ اور اگر ہم عملی قدم اٹھاتے ہیں — اگر ہم اس شاندار کمرے سے متحد اور پکا ارادہ کر کے وہ کچھ کرنے کے لیے نکلتے ہیں جو دنیا کے لیے ایک خطرہ بنی ہوئی اس دہشت کو تباہ کرنے کے لیے درکار ہے — تو پھر ہمارے شہریوں کو جو عظیم مستقبل نصیب ہوگا اُس کی کوئی حد نہیں۔

تہذیب کی جائے پیدائش ایک نئی نشاۃِ ثانیہ کے آغاز کی منتظر ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ آنے والا کل کیا لے کر آئے گا۔

سائنس، آرٹ، طب اور تجارت کے شاندار نوعِ انسانی کو متاثر کرنے والے عجائبات۔ تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات پر تعمیر کیے گئے عظیم شہر۔ لاکھوں لوگوں کو بلندی پر پہنچانے والے نئے روزگار اور نئی صنعتیں۔  اپنے بچوں، اپنے گھرانوں کے لیے فکرمند نہ ہونے والے والدین، اپنے پیاروں کا سوگ نہ منانے والے خاندان، اور بلاخوف و خطر عبادت کرنے والے عبادت گزار۔

یہ خوشحالی اور امن کی برکتیں ہیں۔ یہ وہ خواہشات ہیں جو ہر انسان کے دل میں ایک نیک شعلے کی طرح روشن ہیں۔ اور یہ ہمارے پیارے لوگوں کے جائز مطالبات ہیں۔

میرا آپ سے کہنا ہے کہ میرے ساتھ شامل ہوں، اکٹھے ہوں، اکٹھے کام کریں، اور اکٹھے جدوجہد کریں کیونکہ متحد رہ کر ہم ناکام نہیں ہوتے۔

شکریہ۔ خدا کی آپ پر رحمت ہو۔ خدا کی آپ کے ملک پر رحمت ہو۔ خدا کی ریاستہائے متحدہ امریکہ پر رحمت ہو۔”