پندرہ برس قبل روانڈا کے دارالحکومت کیگالی کی قومی ہسپتال کا چھوٹے بچوں کا وارڈ ملیریا کا شکار ہونے والے بچوں کے لیے کم پڑ گیا تھا۔ روانڈا میں اموات کی ایک بڑی وجہ ملیریا کا مرض ہے۔
ڈاکٹر لیسین ٹوسنگے بچوں کی بیماریوں کی ماہر ہیں۔ انہیں یاد ہے کہ ملیریا کی وجہ سے واقع ہونے والی خون کی کمی سے پیلے ہوجانے والے دو دو بچوں کو وارڈ میں ایک ہی بستر پر لٹایا جاتا تھا۔ حتی کہ بیمار بچے فرش پر بھی لیٹے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر کہتی ہیں، “اب، یہ تعداد بڑی حد تک کم ہو چکی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وارڈ اب خالی پڑا ہوا ہے۔ نئی نسل کے سامنے ایک اچھے مستقبل والا ملک ہے۔”
2005ء میں دنیا بھر میں ملیریا نے تقریباً 12 لاکھ افراد کی جانیں لیں۔ گزشتہ برس ملیریا سے متعلقہ اموات کی تعداد 405,000 تھی۔
کس چیز نے اس کمی کو ممکن بنایا؟ 30 جون 2005 کو شروع کیے جانے والا امریکی صدر کا ملیریا کا ابتدائیہ یعنی پروگرام (پی ایم آئی) ایک ایسی بیماری کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا جو ہزاروں برسوں سے انسانوں میں طاعون کی طرح پھیل چکی تھی۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران امریکی قیادت نئی توانائی، وسائل اور عطیات دہندگان اور متاثرہ ممالک کے مابین رابطہ کاری کا ایک عزم لے کر سامنے آئی ہے۔
امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کی قیادت میں اور بیماری کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کی جانب سے عملی شکل دینے والا پی ایم آئی (منصوبہ) اب افریقہ کے زیریں صحارا کے 24 ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا میں میکانگ کے عظیم ذیلی خطے کے تین ممالک میں کام کر رہا ہے۔ یہ ممالک دنیا میں ملیریا کی بیماری والے ممالک کا 90 فیصد بنتے ہیں۔
ذیل میں پی ایم آئی کی پندرھویں سالگرہ کے موقع پر ملیریا کے خلاف جنگ میں حاصل کی جانے والی 15 کامیابیوں اور اختراعات کا ذکر کیا جا رہا ہے:-
ملیریا کے مریضوں اور ملیریا سے مرنے والوں کی تعداد دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔

پی ایم آئی کی سرگرمیاں شروع ہونے سے لے کر آج تک شراکت کار ممالک میں عالمی کوششوں کی وجہ سے ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں 27 فیصد کمی اور ملیریا سے ہونے والی اموات میں 60 فیصد کمی لانے میں مدد ملی ہے۔
پوری تاریخ میں بچوں کے اس بیماری سے بچ نکلنے کے آج بہتر امکانات موجود ہیں۔

ملیریا کے دن بند گھٹتے انفیکشن کی وجہ سے افریقہ کے زیریں صحارا کے 22 شراکت کار ممالک میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی شرح میں اچھی خاصی کمی آئی ہے۔
ملیریا سے پاک ہونے کی راہ پر گامزن ممالک کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

پی ایم آئی کی مدد نے ملیریا کے خاتمے کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد کی جس کی وجہ سے اس وقت نو شراکت کار ممالک اپنی سرحدوں کے اندر نہ صرف ملیریا کے پھیلاؤ پر قابو پا رہے ہیں بلکہ اسے روک بھی رہے ہیں۔
مچھر دانیاں استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

پی ایم آئی نے مہموں اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال اور حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کے ذریعے کیڑے مار دواؤں والی مچھر دانیوں کی مفت تقسیم کے پروگراموں کی سربراہی کی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ مچھر دانیوں کے اندر سونے سے ملیریا کی بیماری سے محفوظ رہ رہے ہیں۔
ملیریا کے ٹیسٹ سادہ اور تیزی سے ہو جاتے ہیں۔

پی ایم آئی نے تیز تشخیصی ٹیسٹوں (آر ڈی ٹییز) اور طبی کارکنوں کو گاؤں اور کلینکوں میں ان کے استعمال کی تربیت دے کر اُن لوگوں کے علاج کے رجحان کو فروغ دیا جنہیں ملیریا کی بیماری لگنے کا شک تھا۔ اس کے نتیجے میں اُن کی بہتر دیکھ بھال اور ملیریا کے علاج کی دواؤں کا زیادہ موثر استعمال ممکن ہوا۔
ملیریا کے علاج کے لیے بہتر دوائیں دستیاب ہیں۔

ایڈز، تپدق اور ملیریا کا مقابلہ کرنے کے عالمی فنڈ کے ساتھ مل کر، پی ایم آئی نے کمیونیٹیوں کی مدد ملیریا کے خلاف کام کرنے والی آرٹی مسینین کے مشترکہ علاج (اے سی ٹی) کہلانے والی زیادہ موثر دواؤں کو علاج کی اولین ترجیح بنا کر کی۔ اس کے علاوہ پی ایم آئی نے تیزی سے کام کرنے والی اِن دواؤں کو لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے قابل رسا بنایا۔
فیصلہ سازی میں بہتر ڈیٹا سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔

پی ایم آئی نے ملیریا پر کام کرنے والے افراد اور کلینکوں میں کام کرنے والے طبی عملے کی ملیریا کے پھیلنے پر نظر رکھنے، ملیریا کی موسمی اقسام اور اس کے علاج کے لیے درکار دواؤں اور ٹیسٹوں کی تعداد وضح کر نے میں مدد کی۔ اس مقصد کے لیے پی ایم آئی نے گھرانوں کے قومی سروے میں اور دنیا کے ممالک کی ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتیں پیدا کرنے میں ملیریا کی بیماری کی شمولیت کو یقینی بنایا۔
زیادہ سے زیادہ گھروں میں کیڑے مار داؤں کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے۔

پی ایم آئی نے گھروں کے اندر پہلے چھڑکاؤ کے بعد بچ جانے والے ملیریا کے جراثیموں کو مارنے کے لیے دوبارہ چھڑکاؤ کرنے کی سہولتوں (آئی آر ایس) پر ایسے علاقوں میں خصوصی طور پر کام کیا جہاں ملیریا کی شدت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ کسی ایک کیڑے مار دوا کے خلاف پیدا ہو جانے والی مزاحمت کی وجہ سے ملیریا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متبادل کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ بھِی کیا۔
حاملہ عورتوں کی زیادہ تعداد اب ملیریا سے محفوظ ہے۔

دواؤں کی خرید سے لے کر دواؤں کی خوراکوں کے اوقات اور تعداد کے تعین کے بارے میں طبی کارکنوں کی تربیت تک، پی ایم آئی نے حاملہ عورتوں میں ملیریا کی روک تھام پر کام کیا ہے جس کی بدولت مائیں اور نوزائیدہ بچے دونوں ملیریا کی بیماری سے محفوظ ہوگئے ہیں۔
چھوٹے بچوں کو موسمی ملیریا کے علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

پی ایم آئی کی تحقیق اور دواؤں کی خرید میں مدد اور دواؤں کی تقسیم میں اعانت نے مغربی افریقہ کے دو کروڑ بچوں کو ملیریا سے محفوظ رکھنا ممکن بنا دیا۔
دیہی آبادیوں کو صحت کی خدمات تک رسائی حاصل ہے۔

پی ایم آئی نے کمیونٹی کے طبی کارکنوں اور کمیونٹی کی بنیاد پر تشخیصوں اور بچوں کے علاج کی مدد سے افریقہ بھر میں اور ایشیا کے علاقوں میں پھیلی دیہی کمیونٹیوں میں خاندانوں کو گاؤں میں اپنے گھروں کے قریب ملیریا کے علاج کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد کی ہے۔
ملیریا کی روک تھام اور اس کا علاج کرنے میں کمیونٹیاں با اختیار ہو گئی ہیں۔

پی ایم آئی کی سرمایہ کاریوں اور اعداد و شمار کی بنیادوں پر اختیار کیے گئے علاج معالجے کے طریقوں سے لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنے سے لاکھوں خاندانوں کو ملیریا کی روک تھام اور بیماری کی صورت میں ملیریا سے صحت یاب ہونے میں مدد ملی ہے۔
کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی دواؤں کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت پر نظر رکھی جاتی ہے۔

پی ایم ائی نے شراکت دار ممالک میں کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کے علاج کی دواؤں کے موثر پن پر نظر رکھنے اور ٹیسٹ کرنے کے لیے شراکت دار ممالک میں صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔
نئی دواؤں، کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی روک تھام کے دیگر وسائل کی ایک مضبوط رسد موجود ہے۔

یو ایس ایڈ کی سرمایہ کاریوں اور تکنیکی مدد نے کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی دواؤں کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت سے نمٹنے کے لیے نئے وسائل مہیا کر دیئے ہیں۔ اِن وسائل کی چند ایک مثالوں میں ملیریا کی دواؤں کے لیے شراکت کاری اور کیڑوں مکوڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں کی اختراعی روک تھام کا کنسورشیم اور یو ایس ایڈ کا ملیریا کی ویکسین کی تیاری کا پروگرام شامل ہیں۔
رسد کا سلسلہ صحیح سامان صحیح جگہ پر صحیح وقت پر دستیاب ہونے کو یقینی بناتا ہے۔

مچھر دانیوں، ٹیسٹوں اور دواؤں جیسے ملیریا سے متعلق سامان کی خریداری اور ترسیل کا ایک ایسا مضبوط نظام اب قائم ہو چکا ہے جو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے کسی بھی مرکز میں کسی بھی قسم کے سامان کی کم ہوتی ہوئی مقدار کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
یہ مضمون ایک مختلف شکل میں میڈیم میں چھپ چکا ہے۔