صنفی بنیادوں پر آن لائن کیے جانے والے تشدد کا خاتمہ

ڈیجیٹل دنیا اپنے اندر عورتوں، لڑکیوں اور ایل جی بی ٹی کیو آئی+ افراد کی آوازوں کو توانا بنانے کے روشن امکانات سموئے ہوئے ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس دنیا نے صنفی بنیادوں پرکی جانے والی بدسلوکی اور ایذا رسانی کی بڑھتی ہوئی نئی شکلوں کو بھی جنم دیا ہے۔

حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور نجی شعبے کے گروپوں کے اتحاد کے مطابق صنف پر مبنی آن لائن تشدد انسانی حقوق کا ایک ایسا مسئلہ ہے جسے عالمی سطح پر حل کیا جانا چاہیے۔ اس اتحاد کا مقصد اس سال کے آخر تک ٹھوس نتائج سامنے لے کر آنا ہے۔

ڈنمارک اور امریکہ کی قیادت میں صنفی بنیادوں پر آن لائن ہراسگی اور زیادتیوں کے خلاف ایک عالمگیر شراکت داری تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد “ٹکنالوجی کی مدد سے صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد” کی روز بروز بڑھتی ہوئی لعنت کو ختم کرنا ہے۔  ڈنمارک اور امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، جنوبی کوریا، سویڈن اور برطانیہ اس شراکت داری کے بنیادی رکن ممالک میں شامل ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے نئی شراکت داری کا آغاز کرتے ہوئے نیویارک میں 16 مارچ کو ایک تقریب کے دوران کہا، “جنسی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف ہمارے ردعمل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔”

انہوں نے کہا، “ہم سب کو آن لائن ہراسگی اور بدسلوکی کے اس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اسے ایک طویل عرصے سے نظر اندازکیا جا رہا ہے۔”

آن لائن صنفی بنیادوں پر کی جانے والی بدسلوکی کو روکنا اور اس کا جواب دینا صدر بائیڈن کی 2021 سربراہی کانفرس برائے جمہوریت کے دوران طے کی جانے والی ترجیحات میں بھی شامل ہے۔

خواتین کی حیثیت پر اقوام متحدہ کے چھیاسٹھویں کمیشن کے اجلاس کے دوران تشکیل دی گئی یہ شراکت داری ڈیجیٹل میدان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈنمارک کی قیادت میں تیار کیے گئے ٹیکنالوجی برائے جمہوریت کے منصوبے کا بھی حصہ ہے۔

پوری دنیا کا مسئلہ

وائٹ ہاؤس کے مطابق ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر کہیں 85% خواتین اور لڑکیوں کو کسی نہ کسی شکل میں آن لائن ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بعض متاثرین کو شدید ذہنی تناؤ، سماجی تنہائی اور خودکشی کے خیالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کی مثالوں میں سے چند ایک مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:-

  • کسی فرد کو اُس کی رضامندی کے بغیر برہنہ ڈیجیٹل تصاویر بھیجنا۔
  • پیچھا کرنا۔
  • جنسی تشدد کی سٹریمنگ کرنا۔
  • جنسی تشدد یا موت کی دھمکیاں دینا۔
 بریفنگ روم میں ڈائس کے قریب کھڑیں تین عورتیں (© Patrick Semansky/AP Images)
وائٹ ہاؤس کی صنفی پالیسی کونسل کی ڈائریکٹر، جینیفر کلائن [دائیں طرف] 18 مارچ کو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں تقریر کر رہی ہیں۔ اس بریفنگ میں سپین اور اندورا میں امریکی سفیر، جولیسا رینوسو[بائیں طرف]، اور وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری، جین ساکی بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔ (© Patrick Semansky/AP Images)

اس شراکت داری کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں گے:-

  • صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے آن لائن تشدد کی نشاندہی کرنے، اُس کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنےاور اس پر کاروائی کرنے کے لیے کارکنوں کو تربیت دینا۔
  • قومی، علاقائی اور عالمی سطحوں پر تقابلی ڈیٹا جمع کرنا اور اسے شیئر کرنا۔
  • جنسی بنیادوں پر روا رکھی جانے والی بدسلوکیوں کو روکنے اور ان کا جواب دینے کے لیے پروگراموں اور وسائل میں اضافہ کرنا۔

وائٹ ہاؤس کی صنفی پالیسی کونسل کی ڈائریکٹر، جینیفر کلائن نے بتایا، “آن لائن ہراساں کیے جانے اور بدسلوکی کرنے کے خواتین، لڑکیوں اور دیگر کم نمائندگی والے یا پسماندہ گروہوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات ذاتی زباں بندی یا مکمل طور پر تنہائی کی شکل میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔”

انہوں نے کہا، ” کیونکہ یہ بدسلوکیاں حقیقی معنوں میں سرحدوں سے ماورا ہوتی ہیں، لہذا ہماری کوششوں کو بھی سرحدوں سے ماورا ہونا چاہیے۔”