صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے اندازے کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت نے اپنی زندگی میں یا تو صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد (جی بی وی) کا سامنا کیا ہوتا ہے یا وہ مستقبل میں اس کا سامنا کرے گی۔
“اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ” نامی ادارے کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب سے کوووڈ کی وبا شروع ہوئی ہے 38% خواتین کو ذاتی طور پر آن لائن تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور 85% خواتین کسی نہ کسی ایسے شخص کو جانتی ہیں جسے آن لائن تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے خواتین کے عالمی مسائل کے دفتر کی اعلٰی عہدیدار، کیٹرینہ فوٹوویٹ کا کہنا ہے کہ جی بی وی کی روک تھام اور ضروری اقدامات امریکی محکمہ خارجہ کی ترجیح ہے۔
انہوں نے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “عالمی وبا کی وجہ سے صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد میں یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ [تشدد] ہر ملک اور ہر معاشرے کے عوامی اور نجی ماحولوں میں ہر سطح پر آن لائن اور آف لائن ہوتا ہے۔ گو کہ عورتوں اور لڑکیوں کو غیرمتناسب طور پرحقیقی معنوں میں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے غیر متناسب خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس قسم کے تشدد کا نشانہ سب جنسوں کے لوگوں کو بنایا جا سکتا ہے۔”
صنفی بنیادوں پر کیا جانے والا تشدد کیا ہوتا ہے؟
اقوام متحدہ کے مطابق صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد میں جنسی، جسمانی، ذہنی اور معاشی طور پر پہنچایا جانا والا نقصان شامل ہوتا ہے اور یہ نقصان کھلے عام یا نجی طور پر پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں زبردستی، ہیرا پھیری اور تشدد کی دھمکیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔

کسی بھی قسم کی ازدواجی شراکت کے دوران کیے جانے والے تشدد؛ بچپن یا کم عمری میں شادی یا جبری شادی؛ نسوانی ختنے؛ جنسی سمگلنگ؛ لڑکی کی پیدائش پر اسے قتل کرنا؛ اور “غیرت” کے نام پر قتل کرنا اِن سب کا شمار صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد میں ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ گو کہ جی بی وی دنیا کے سب علاقوں میں متواتر بڑھتا چلا جا رہا ہے مگر ازدواجی شراکت کاروں کے سب سے زیادہ واقعات جنوبی ایشیا اور افریقہ کے زیریں صحارا میں ہوتے ہیں۔
فوٹوویٹ کا کہا ہے کہ “وہ افراد جن کو امتیازی سلوک کی ایک سے زیادہ شکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں جی بی وی کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ لہذا ہم اپنے کام میں تجزیاتی سوچ اپناتے ہیں۔ مثال کے طور پر معذور خواتین کے جنسی تشدد کا شکار ہونے کے دیگر خواتین کے مقابلے میں چار گنا زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔”
جی بی وی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے کام کرنا
امریکہ کا محکمہ خارجہ صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے امریکی حکمت عملی‘ کو عنقریب اپ ڈیٹ کرنے جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ خارجہ جی بی وی کے متاثرہ افراد پر مرکوز سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرکاری اداروں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر جو کام کر رہا ہے اس میں مندرجہ ذیل اقدامات بھی شامل ہیں:-
- صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے متاثرین کو بیرونی ممالک میں قانونی وسائل فراہم کرنا۔
- صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے متاثرین کے لیے کمیونٹی کی سطح پر وسائل فراہم کرنے کی خاطر ماہرین کے ساتھ رابطہ کاری کرنا۔
- جی بی وی کو روکنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر 175 ملین ڈالر کی فراہمی۔
محکمہ خارجہ صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے خاتمے کا حامی بننے کے لیے لوگوں کو آگاہی دینے کی کاوشوں میں بھی مدد کر رہا ہے۔

فوٹوویٹ کا کہنا ہے کہ “ہماری خارجہ پالیسی اور امدادی کاوشوں، دونوں کا ایک لازمی حصہ بنیادی ڈھانچوں میں عدم مساوات اور سماجی اصولوں کی خامیوں کو دور کرنا ہے۔ ہمارے کام میں مردوں اور لڑکوں کو روک تھام کی قلیل اور طویل مدتی کاوشوں میں شامل کرنا اور نوجوانوں کو اُن کی اپنی کمیونٹیوں میں اس [تشدد کے خاتمے] کا حامی بننے کے لیے وسائل فراہم کرنا ہے تاکہ وہ نقصان دہ صنفی اصولوں کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ایک زیادہ منصفانہ اور پرامن معاشرے کی تشکیل دے سکیں۔”
صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف 16 دنوں پر پھیلے فعالیت، جی بی وی کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے کی ایک سالانہ مہم ہے۔ فوٹوویٹ سب کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں صنفی چیمپئن بنیں اور مدد کرنے کے لیے مقامی تنظیموں کو تلاش کریں۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں صنفی مساوات کے حق میں اٹھ کھڑا ہونے کے لیے تمام پسہائے منظر اور تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ جی بی وی درحقیقت انسانی حقوق کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔”