امریکہ اندرون ملک اور دنیا بھر میں صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہا ہے۔
یہ کام خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس مسئلے کو “پوشیدہ وبائی مرض” کا نام دیا گیا ہے۔

نومبر 2021 میں وائٹ ہاؤس نے صنفی انصاف اور مساوات پر پہلی امریکی قومی حکمت عملی جاری کی۔ اس میں ائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ وہ صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کی تمام اقسام کو ختم کرنے، جامع خدمات کے ذریعے اس کا شکار ہونے والوں کی مدد کرنے اور روک تھام کی کوششوں کو بڑہانے کے لیے قومی اور عالمی پالیسیوں کو مضبوط بنائے گا۔
ہو سکتا ہے کہ صنفی بنیادوں پر کیے جانے والا تشدد کورونا کی وبائی مرض کے دوران گھر میں قیام کے احکامات اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے غیر ارادی نتیجے کے طور پر بڑہا ہو۔ زیادہ تر حالات میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے اٹھائے گئے اقدامات کا نتیجہ عورتوں اور بچوں کے خاندان کے پرتشدد افراد کے ساتھ الگ رہنے کی صورت میں نکلا ہو۔ اسی طرح فنڈنگ کی کمی بھی بالعموم امدادی سہولتوں میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق گھریلو تشدد کی رپورٹوں اور گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے قائم کی گئی ٹیلی فون ہاٹ لائنوں پر آنے والی فون کالوں میں ارجنٹائن، فرانس اور سنگاپور جیسے ممالک میں 25% یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہوا ( پی ڈی ایف، 58کے بی) جبکہ مشرقی افریقہ کے کچھ ممالک میں یہ اضافہ 48% تک پہنچ گیا ( پی ڈی ایف، 350 کے بی)۔ اسی طرح کینیڈا، جرمنی، سپین، برطانیہ اور امریکہ میں رپورٹ شدہ کیسز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
1 in 3 women experience either sexual or physical violence, making gender-based violence prevention & response a significant human rights & democracy imperative. The U.S. remains committed to ending all forms of #GBV in the effort to promote equity & strengthen democracy. #16Days pic.twitter.com/na41xvfbrW
— The Secretary’s Office of Global Women’s Issues (@StateGWI) December 9, 2021
اقوام متحدہ کے صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے ادارے کی جسے یو این ویمن بھی کہا جاتاہے نومبر 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سروے کی گئی نصف خواتین نے کہا کہ یا تو وہ خود یا ان کے جاننے والی عورتوں کو کووڈ- 19 کے وبائی مرض کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بائیڈن-ہیرس انتظامیہ نے کہا کہ صنفی بنیاد پر تشدد کو ختم کرنا ایک اخلاقی اور تزویراتی ضرورت ہے۔ لوگوں کی جسمانی اور نفسیاتی حفاظت کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ، صنفی بنیاد پر کیا جانے والا تشدد خاندانوں، کمیونٹیوں، معیشتوں اور مجموعی طور پر معاشروں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں امریکہ نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں:-
- ایتھوپیا، عراق، شام، نائجیریا، ہیٹی، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، برما، جنوبی سوڈان، مالی، صومالیہ، وسطی افریقی جمہوریہ، پاکستان، فلپائن اور یمن سمیت [مختلف] علاقوں میں محفوظ مقامات، مشاورتی پروگراموں اور دیگر خدمات فراہم کرنے کے لیے 2014 سے لے کر 2016 تک تقریباً 87 ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔
- نقصان دہ صنفی رواجوں کو ختم کرنے اور 15 ممالک میں صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہونے والوں کو “یو ایس ڈریمز” شراکت داری کے تحت وسائل فراہم کرنے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کیا۔ یو ایس ڈریمز انگریزی کے الفاظ، پرعزم، لچکدار، بااختیار، ایڈز سے پاک، رہنمائی اور محفوظ کا مخفف ہے۔
- دنیا بھر میں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کی مربوط روک تھام اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر مشتمل ردعمل اختیار کیا گیا۔
- ایسے پراجیکٹوں میں مدد کی گئی جو روک تھام کی کوششوں کو تقویت پہنچاتے ہیں، احتساب کو فروغ دیتے اور قانونی نظام سمیت تشدد کا شکار ہونے الوں کو درپیش نظاماتی رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔
- اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کی تاکہ تنازعات کے شکار علاقوں اور انسانی مسائل سے دوچار ماحول میں رہنے والی عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کی تمام اقسام کو روکنے اور اس کے جواب دینے کو امریکی حکومت کے جمہوریت کو فروغ دینے، انسانی حقوق کو بڑہاوا دینے اور صنفی مساوات میں اضافہ کرنے کے عزم میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
صدر بائیڈن نے 24 نومبر 2021 کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر کہا، “عورتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ ایک مستقل قدر اور مقصد ہے جسے ہمیں ہرصورت میں اپنے تمام کاموں میں ترجیح دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیاں اور عورتیں صرف اس وقت اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لا سکتی ہیں جب وہ بدسلوکی اور تشدد کے خوف سے آزاد رہ کر زندگی گزار سکیں۔”