صومالیہ کے داستان گوؤں کی اگلی نسل

داستان گو کہتا ہے “شیخو شیخو۔” اس کے جواب میں طلبا کہتے ہیں:”شیخو شریر۔”

اس طرح استاد کہانی شروع کرتا ہے اور طالب علم غور سے سنتے ہیں۔ یہ اُن گزرے وقتوں کی یاد دلاتا ہے جب صدیوں تک بچے کہانیاں سنانے والوں کے گرد اکٹھے ہوتے رہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہوا کرتی تھی کہ بچے اب تعلیم کے لیے تیار ہیں۔

اس صدا اور اس کے جواب میں “شیخو” کا مطلب “کہانی” اور “شریر” کا مطلب “ہمیں سناؤ” ہے۔ انہی الفاظ سے سالِ رواں کے موغادیشو کے کتابی میلے (ایم بی ایف) کا آغاز ہوا۔ یہ ماضی کی ثقافتی روایات اور امیدوں بھرے مستقبل کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔

صومالیہ کی سرپرستی میں اور امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے یعنی یو ایس ایڈ کی مدد سے خواندگی اور تعلیم کے لیے شروع کی گئی یہ مہم کا اب اپنے چوتھ سال میں ہے۔ موغا دیشو کے علاقے وابیری میں ہونے والے اس تین روزہ میلے میں ہر دن لگ بھگ 2,000 افراد نے شرکت کی۔

ایک کلاس روم میں ٹیچر ایک طالبہ کے ڈیسک کے قریب کھڑی ہے۔ (© Sebastian Rich/UNICEF)
یوایس ایڈ کے متبادل بنیادی تعلیم (اے بی ای) کے پراجیکٹ کے تحت، ایک کمیونٹی ٹیچر صومالیہ کے گیڈو، بے اور باکول نامی علاقوں میں پڑھاتی ہیں۔ (© Sebastian Rich/UNICEF)

موغادیشو میں امریکی سفارت خانے کے نائب سفیر، برائن نیوبرٹ کا کہنا ہے، “ایم بی ایف کے بارے میں جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس کے شرکاء نوجوان ہیں اور ایک ایسی نسل کا حصہ ہیں جنہیں تصادموں کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں۔ امریکی حکومت ایم بی ایف جیسے صومالیہ کی زیرقیادت ایسے منصوبوں کی مدد کرتی ہے جو تصادم کے علاوہ اپنی پہچان کروانے کے لیے اِس (نئی) نسل نے بذات خود یا اس کے لیے دوسروں نے شروع کیے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ نئی نسل بحث مباحثے کرتی ہے، تعاون کرتی ہے اور صومالیہ کے نئے بیانیے اور شناخت کو پائیدار بناتی ہے۔”

6 سے 13 سال کی عمروں کے محض 33 فیصد بچے پرائمری سکولوں میں جاتے ہیں۔ افریقہ کے زیریں صحارا کے خطے کے کم آمدنی والے ممالک کی 74 فیصد شرح کے مقابلے میں یہ شرح انتہائی کم ہے۔ زیادہ محفوظ اور شہری علاقوں میں بہتر تعلیمی مواقع دستیاب ہیں۔ اس وجہ سے دیہات میں رہنے والے اور غریب بچوں کو تعلیم تک رسائی میں برابری حاصل نہیں۔ نوکریاں حاصل کرنے کے لیے صلاحیتیں بڑہانے کے لیے خواندگی اہم ہے۔ اسی طرح صومالی استحکام کے لیے مشترکہ صومالی شناخت اور مقصد کے احساس کے لیے بھی خواندگی ضروری ہے۔

صومالیہ میں یو ایس ایڈ کے مشن کے نائب ڈائریکٹر برائن فرانٹز کہتے ہیں، “سکول جانے کی عمر کے تین ملین بچے سکول نہیں جا پاتے۔ اس صورت حال میں ہمیں سکول کی عمر کے تمام بچوں تک پہنچنے کے لیے ایک اجتماعی کوشش اور عزم کی ضرورت ہے۔”

داستان گوئی بحیثیت سماجی بندھن

زمین پر رکھے کاغذوں پر دو بچے تصویریں بنا رہے ہیں۔ (@ USAID/UNICEF)
دو بچے موغا دیشو کے کتابی میلے کے خیمے کے اندر مل کر ہاتھ سے تصویر بنا رہے ہیں۔ (@ USAID/UNICEF)

ایم بی ایف میں داستان گوئی کے خیمے میں بچے ایسے میں چوکڑی مار کے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے چہروں پر حیرانگی طاری ہے جب “ڈاواکو ایو یاشاس” (لومڑی اور مگر مچھ) نامی صومالی لوک کہانی کی ڈھول کی تھاپ اور تالیوں میں ڈرامائی شکل سامنے دکھائی دے رہی ہے۔

بچے اُس مگرمچھ کی کہانی سنتے ہیں جس نے ایک لومڑی کو اپنی زبان ادھار دی ہوئی ہے اور لومڑی یہ زبان مگرمچھ کو واپس کرنے سے انکار کرتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ کے لیے لذیذ کھانے کھانا چاہتی ہے۔ مگر مچھ نے یہ سبق سیکھا ہے کہ نیکی کے کاموں کا صلہ ہمیشہ نہیں ملتا۔ اس لوک کہانی کو یو ایس ایڈ کی ایک تعلیمی پراجیکٹ کے لیے دی جانے والی مالی امداد کے تحت چھاپا گیا ہے تاکہ اسے صومالیہ بھر کے سکولوں میں تقسیم کیا جا سکے۔

طویل شکل میں یہ مضمون یو ایس ایڈ میں دستیاب ہے۔