طیاروں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کی حدود مقرر کرنے کی، دنیا کے ممالک کی منظوری

اگر ہوابازی کی عالمی صنعت ایک ملک ہوتی تو یہ کاربن کے اخراج پیدا کرنے والا دنیا کا ساتواں ایسا ملک ہوتا جو کینیڈا ارو جنوبی کوریا سے زیادہ اخراج پیدا کرتا۔

6 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے شہری ہوابازی کے گروپ نے دنیا میں پہلی مرتبہ کسی مخصوص صنعت کے لیے آلودگی پھیلانے والے اخراجوں کی عالمی حدود مقرر کیں۔ شہری ہوابازی کی مقرکردہ یہ عالمی حدود اُس پیرس سمجھوتے کا حصہ نہیں ہیں جو 4 نومبر سے  نافذ العمل ہونے جا رہا ہے۔

کیا طے پایا؟

  شہری ہوابازی کی بین الاقوامی تنظیم کے 191 رکن ممالک نےمانٹریال میں ہونے والے ایک اجلاس میں نئے اقدامات کی منظوری دی۔ ان اقدامات کا اطلاق بین الاقوامی پروازوں پر ہوتا ہے جو مجموعی پروازوں کا 60 فیصد ہیں۔ اندرون ملک چلنے والی پروازیں، پیرس سمجھوتے کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔

  • 2020ء کے لیے مقرر شدہ حد سے تجاوز کرنے والی ایئرلائنوں کو اپنے اپنے آلودگی پھیلانے والے اخراجوں میں اضافے کو کم کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں یا تو طیاروں میں بہتری لانا ہوگی تاکہ کم آلودگی پھیلے یا انہیں ” آلودگی میں “آفسٹ” یعنی متبادلات خریدنا ہوں گے۔ آفسٹ ان پراجیکٹوں کےکریڈٹ ہوتے ہیں جن کے تحت گرین ہاوًس گیسوں کے اخراجوں کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
  • امریکہ، چین، یورپی یونین کے ارکان اور دیگر ممالک نے 2021ء سے 2027ء تک کے “رضاکارانہ” مرحلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تاہم 2028 سے لیکر 2035 تک تمام ممالک کوآلودگی پھیلانے والے اخراجوں میں کمی لانا ہوگی۔ کچھ ممالک ہنوز  رضاکارانہ مرحلے پر شرکت کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے  کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
  • ماہرین کے اندازے کے مطابق اس سمجھوتے کی مدت پوری ہونے پر کاربن کی آلودگی میں مجموعی طور پر اڑھائی ارب ٹن کی کمی واقع ہو گی۔ یہ مقدار سڑکوں سے ہر سال ساڑھے تین کروڑ کاریں ہٹا لینے کے مترادف ہے۔

وزیرخارجہ جان کیری نے اس سمجھوتے کو “بے مثال ” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھوتہ طیاروں سے پیدا ہونے والی آلودگی کے بارے میں امریکہ اور دیگر ممالک کی ایک عشرے پر محیط کاوشوں کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔