عالمگیر ویکسین کے ذریعے فلو پر قابو پانے کی کوشش

Worker with gloves handling a box of vials (© Carolyn Kaster/AP Images)
ریاست میری لینڈ میں صحت کے قومی تحقیقی ادارے میں قائم ویکسین ریسرچ سنٹر میں ایک محقق ڈبے میں رکھی نلکیوں میں فلو کے منجمد جراثیموں پر کام کر رہا ہے۔ (© Carolyn Kaster/AP Images)

سو سال پہلے انفلوئنزا کی وبا نے دنیا کی قریباً ایک تہائی آبادی کو لپیٹ میں لے لیا تھا جس سے پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔

آج  8,000  سائنس دان انفلوئنزا سے متعلق مکمل ڈیٹا کے تبادلے کے عالمگیر اقدام (جی آئی ایس اے آئی ڈی) کے ذریعے دنیا بھر میں انفلوئنزا وائرس کے پیدا ہونے اور اس کے پھیلنے کا کھوج لگاتے ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں، دواساز ادارے اور طبی ماہرین وبا کے خلاف ردعمل کو مربوط بنانے کے لیے موقع پر کام کرنے والے نگرانی کے اس نظام کو استعمال کرتے ہیں۔

امریکی سائنس دانوں کی جانب سے فلُو کی کسی دوسری بڑی وبا کو روکنے کے لیے سو سال پر محیط تحقیقی کوشش میں ”بیماریوں پر قابو پانے اور اس کی روک تھام کے امریکی مراکز” نے 2005 میں خوردبینی حیاتیات کے ماہر ٹیرنس ٹمپے کو 1918 کے اُس انفلوئنزا وائرس کو دوبارہ بنانے کو کہا جو کہ عام طور پر ہسپانوی فلُو کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کوئی تہذیب پوری طرح اس وبا سے بچ نہیں پائی۔ ٹمپے نے جس نوعیت کے جراثیم دوبارہ بنائے ان سے سائنس دان ان جینیاتی علامات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جنہوں نے بقول ٹمپے ان جراثیموں کو ”اس قدر جان لیوا” بنا دیا تھا۔

Patients lying on beds in an emergency hospital in 1918 (© National Museum of Health and Medicine/AP Images)
انفلوئنزا کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو 1918 میں فورٹ رائلری، کنسس میں قائم کیے گئے ایک ایمرجنسی ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ (© National Museum of Health and Medicine/AP Images)

دوبارہ بنائے گئے وائرس کی مدد سے سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ ایک دہائی قبل سوائن فلُو کی وبا کا سبب بننے والے جراثیم “2009 ایچ ون این ون”  دراصل “1918 ایچ ون این ون” وائرس ہی  کی نسل تھے۔ اب سائنس دان اس سے ملتی جلتی جینیاتی علامات والی جراثیمی اقسام کے پیدا ہونے کا پتا چلا سکتے ہیں تاکہ وائرس کو وسیع پیمانے پر پھیلنے سے پہلے ہی اس وبا کے پھوٹ پڑنے کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکے۔

‘جی آئی ایس اے آئی ڈی’ کے ذریعے ڈیٹا کے ایسے تبادلوں سے سائنس دانوں کو بہتر ویکسین کی تیاری میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر شمالی کرے کے سائنس دان جنوبی کرے میں فلُو کے مئی سے اگست تک کے موسم کی بغور نگرانی کرتے ہیں تاکہ یہ پیش گوئی کی جا سکے کہ شمالی کرے کے اکتوبر کے فلو کے موسم میں  جراثیم کی کون سی اقسام کا سامنے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ اس طرح ویکسین بنانے والے اس موسم کی ویکسین میں مناسب تبدیلیاں لاتے ہیں تاکہ خط استوا کے جنوب میں گردش کرتی جراثیمی اقسام سے محفوظ رہا جا سکے۔

فروری 2018 میں الرجی اور وبائی امراض سے متعلق قومی ادارے نے انفلوئنزا ویکسین  کے بارے میں اپنا عالمگیر تزویراتی منصوبہ جاری کیا جس میں تحقیقی ترجیحات اور ایک عالمگیر ویکسین کی تیاری کے لیے ضروری باتوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

ایسی ویکسین کی ایک ہی خوراک سے مریضوں کو انفلوائنزا وائرس کی ایسی بہت سی اقسام سے زندگی بھر کے لیے تحفظ مل جائے گا جو اس وقت موجود ہیں یا مستقبل میں سامنے آ سکتی ہیں۔ اس ویکسین کی بدولت  سالانہ موسمی فلُو سے بچاؤ کی ویکسین لینے کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور 1918 جیسی  وبا کا ایک بار پھر پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔

مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے 2018 میں عالمگیر ویکسین کی تیاری کی غرض سے سائنس دانوں کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ  ڈالر کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ”کسی دوسرے ملک کے پاس اتنی اعلیٰ سائنسی یا تکنیکی مہارت نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔”  انہوں نے ”دنیا کو وبا کا مقابلہ کرنے اور اس کے خلاف ردعمل کے نظام کی تیاری ” کے لیے امریکہ کے قائدانہ کردار پر زور دیا۔