68 ممالک کے وزرائے خارجہ اور بین الاقوامی تنظیموں کے اعلٰی حکام داعش کو شکست دینے کی اتحاد کی کوششوں پر تبادلہِ خیال کرنے کے لیے 22 مارچ کو واشنگٹن میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔
امریکہ کے محکمہِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس داعش کو شکست کی مستقل اور اٹل راہ پر ڈالنے کے کلیدی لمحات کے دوران ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن اس اجلاس کا افتتاح کریں گے۔ گو کہ اتحادیوں کا نسبتاً ایک چھوٹا گروپ، ہر چند ماہ کے بعد ملتا ہے مگر دسمبر 2014 کے بعد 68 ارکان پر مشتمل عالمی اتحاد کے تمام ارکان کا یہ پہلا اجلاس ہوگا۔
اتحادی ارکان ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہیں: یعنی داعش کو ایک ٹھوس موقف کی بنیاد پر شکست دینا۔ اتحاد کی مشترکہ کوششوں کی بدولت داعش کے زیرتسلط علاقوں، قیادت، مالی وسائل اور آن لائن اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔
- عراق کا جو علاقہ کبھی داعش کے زیر تسلط ہوا کرتا تھا اُس کا 60 فیصد سے زائد اِس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور اسی طرح شام میں داعش کے زیرتسلط علاقے کا تقریباً 30 فیصد بھی اس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔
- 2014ء میں داعش کے عروج کے بعد، عراق اور شام میں اس کے جنگجووں کی تعداد پست ترین سطحوں پر ہے۔
- داعش کے کلیدی رہنما ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ اِن میں داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی کے تمام نائبین اور داعش کے ابلاغِ عامہ، خزانے اور تیل اور گیس کے شعبوں کے سربراہ شامل ہیں۔
- اتحادی افواج نے داعش کے تیل کے 1,200 ٹینکر اور تیل کی ترسیل کے انتہائی اہم مراکز تباہ کر دیئے ہیں۔ داعش کی پیسہ اکٹھا کرنے کی اہلیت کو ایک تہائی تک کم کر دیا گیا ہے۔
- داعش کے خلاف جنگ، لڑائی کے میدان سے نکل کر کہیں آگے تک جا پہنچی ہے۔ ٹکنالوجی کی کمپنیاں داعش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹوں کو معطل کر رہی ہیں اور اتحادی شراکت کار اِس کے آن لائن بیانیے کا توڑ کر رہے ہیں۔ اِن کوششوں سے داعش کی مستقبل کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے کی خاطر متاثر کرنے کی ایلیت محدود ہوتی جا رہی ہے۔